’لبنان‘ سے ایک مشہور پہاڑ کا نام ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
ہاں تھی کبھی تمیز سیاہ و سفید میں
اور اب تو جیسی شام ہے ویسی سحر مجھے
محاورے میں سیاہ و سفید کی تمیز اُٹھ جانا خوب و ناخوب میں فرق کا جاتے رہنا ہے، تاہم شعرِ مذکور میں سیاہ و سفید میں تمیز باقی نہ رہنے کا مطلب زندگی کا بے کیف ہو جانا ہے۔
خیر جس تقریب سے یہ تمہید باندھی ہے اس کا تعلق گذشتہ سے پیوستہ تذکرہ سیاہ و سفید سے ہے۔ ان دو ’رنگوں‘ کی رعایت سے دنیا میں کئی ملکوں، شہروں، سمندروں، دریاؤں پہاڑوں، قریوں اور قصبوں کے نام وابستہ ہیں۔
اگر ’سفید‘ کی بات کریں تو مشرق وسطیٰ میں ’لبنان‘ سے لیکر مشرقی یورپ میں ’البانیا‘ تک اور شمالی افریقہ میں ’کاسا بلانکا‘ سے لے کر شمالی امریکا میں ’البرٹا‘ تک کتنے ہی مقامات معنی کی سفید چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
لفظ ’لبنان‘ سے متعلق پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ یہ ایک مشہور پہاڑ کا نام ہے، اور اس پہاڑ کی نسبت سے بعد میں ملک کا نام بھی ’لبنان‘ ہوگیا۔ رہی بات معنی کی، تو عرض ہے کہ ’لبنان‘ کو ’لبن‘ سے نسبت ہے، جب کہ ’لبن‘ عربی میں دودھ، لسّی اور چھاج‘ کو کہتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ جبلِ لبنان کو یہ نام اُس کی سربفلک چوٹیاں پر پڑی برف کی رعایت سے ملا ہے، جو ظاہر ہے کہ ’لبن‘ یعنی دودھ کی طرح سفید نظر آتی ہیں۔ جب کہ ایک اور نقطۂ نظر کے مطابق اس پہاڑ کو ’لبنان‘ کہنے کی وجہ اس پر ایسے درختوں کا پایا جانا ہے جن سے دودھ کا سا سفید مادہ نکلتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بھی ’لبنان‘ کی اصل ’لبن‘ ہی قرار پاتی ہے۔
اب ’سفید‘ کے مفہوم میں اس ’لبن‘ کے ابتدائی دو حروف ’ل، ب‘ کو ذہن میں رکھیں، اور ہند یورپی زبانوں میں موجود ریشۂ لفظ (root word) ’البھو/albho‘ پرغور کریں، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ’البھو/albho‘ کے معنی بھی ’سفید‘ کے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ ’البھو/albho‘ کی رعایت سے طلسم معنی کا ایک ایسا در کُھلتا ہے جو الفاظ و معنی سے دلچسپی رکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ یقین نہ آئے تو اس ’البھو/albho‘ کی ایک اور صورت ’البس/albus‘ کو دیکھیں، لاطینی زبان میں اس کے معنی بھی ’سفید‘ کے ہیں۔
یہی ’البس‘ معمولی سے تغیر کے بعد ’الپس/alps‘ ہوا اور یورپ کے مشہور پہاڑی سلسلے کے نام قرار پایا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلۂ کوہ کو ’الپس‘ پکارنے کے پیچھے بھی اس کی چوٹیوں پر برف کا ہونا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ کوہِ الپس کی سب سے بلند چوٹی کا نام ’ماؤنٹ بلانکا‘ ہے۔ اس ’بلانکا‘ کا مراکش کے شہر ’کاسا بلانکا‘ سے کیا تعلق ہے، اور اسے ’بلینکٹ‘ یعنی کمبل سے کیا نسبت ہے؟ اس کا تذکرہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، فی الحال ’البھو‘ کی نسبت سے بننے والے الفاظ کی بات کرتے ہیں۔
لفظ ’البینو/ albino‘ پرغور کریں، ہسپانوی یا پرتگیزی زبان سے انگریزی میں راہ پانے والی اس اصطلاح کا اطلاق ایسے انسانوں، جانوروں اور پودوں پر ہوتا ہے جن کی کھال و بال اور برگ و گل پیدائشی طور پر ’سفید‘ ہوتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ بعض حیوانات و نباتات کے یوں سفید پڑ جانے کے پیچھے کیا راز ہے، تو سائنس کے مطابق ایسا جسم میں رنگدار مادے (pigment) کی عدم موجودگی کے سبب ہوتا ہے۔
خیر اب ایک لفظ ’آلب/alb‘ کو دیکھیں، اس لفظ کا اطلاق ململ کے ایسے سفید لباس پر ہوتا ہے جو پادری وغیرہ کے لیے مخصوص ہو۔
قدیم جرمن زبان میں ایک لفظ ’albiz‘ آیا ہے، جب کہ یہی لفظ قدیم انگریزی میں ’elfet‘ ہے، اس کے معنی ’سفید پرندہ‘ کے ہیں، جب کہ یہ لفظ عام طور پر ’راج ہنس‘ کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
اب مشرقی یورپی ملک ’البانیا‘ کی بات کرتے ہیں، ماضی میں اس نام کا اطلاق مختلف خطوں پر ہوتا رہا ہے، مثلاً آج جسے ہم سکاٹ لینڈ کے نام سے جانتے ہیں یا کاکیشیا (قفقاز) میں آج جو ریاست ’داغستان‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ دونوں خطے کبھی ’البانیا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے، یہاں اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ اس ’البانیا‘ کو بھی ’البھو‘ سے نسبت ہے۔
اب ایک لفظ ’البم/album‘ کو دیکھیں، جو معنی و مفہوم میں عربی لفظ ’بیاض‘ کا انگریزی مترادف ہے۔ تاہم اردو میں ’بیاض‘ کا مفہوم محدود ہے، جب کہ انگریزی میں ’البم‘ کے لفظ میں خاصی وسعت پائی جاتی ہے۔ مثلاً تصویروں، دستخطوں (آٹو گراف) اور ڈاک ٹکٹ وغیرہ کی کتاب کو ’البم‘ کہتے ہیں۔ جب کہ اسے ’البم‘ کہنے کی وجہ اس کے صفحات کا ’کورا‘ یعنی سفید ہونا ہے۔
اس ’البم‘ ہی کی رعایت سے انگریزی میں سفید مرچ کو ’البم پیپر/album piper‘ اور سفید شکر کو ’البم ساکرُم / album saccharum‘ کہتے ہیں۔ جب کہ سفید صندل (چندن) کو البم سنٹلم /album santalum اور انڈے کا سفيد يا ليس دار حصہ ’البومین/albumen‘ کہلاتا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’کورا‘ دراصل لفظ ’گورا‘ یعنی سفید ہی کی تبدیل شدہ صورت ہے، تاہم ان دونوں لفظوں کے اطلاق میں فرق ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ آغاز میں ایسے صاف و سادہ کاغذ کو جس پر کچھ لکھا یا بنا ہوا نہیں تھا ’کورا‘ کہا گیا۔ پھر کاغذ کا یہ ’کورا پن‘ بہت سے مثبت و منفی مفاہیم پیدا کرنے کا باعث بنا۔
اس ایک ’کورا‘ کے لفظی، مجازی و اصلاحی معنی میں’ صاف و سادہ، اَن پڑھ، بے بہرہ و خالی، بے داغ، نااہل، اناڑی، بے مروّت، بے لحاظ، بے حیا، بے کیف و بے مزا، خشک اور اچھوتا وغیرہ داخل ہیں۔ جب کہ معنی کی اس وسعت نے ’کورا‘ کی نسبت سے دسیوں تراکیب کو بھی جنم دیا، جس میں ’کورا کاغذ، کورا برتن، کورا جواب اور کورا سر‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اب ’کورا کاغذ‘ کی رعایت سے ممبئی (انڈیا) کے ’شمشیر خان‘ کا خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں: