’سعودی عرب اور امارات کی مالی امداد سے زندگیاں بچائی جا رہی ہیں‘
مجید یحیٰ کے مطابق عرب ممالک نے یمن کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کی۔ فوٹو: عرب نیوز
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندے نے سعودی عرب اور امارات کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک کی جانب سے دی گئی مالی امداد سے زندگیاں بچانے اور خواتین و بچوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کرنے میں مدد ملی ہے۔
عرب نیوز کے ہفتہ وار ٹاک شو فرینکلی سپینگ میں بات کرتے ہوئے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے خلیجی ممالک کے لیے نمائندے مجید یحیٰ نے بتایا کہ سال 2018 کے دوران جنگ زدہ یمن میں سعودی عرب اور عرب امارات نے اقوام متحدہ کے پروگرام کو بند ہونے سے بچایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کی جانب سے یمن میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو دی گئی ایک ارب ڈالر کی امداد سے قحط سالی سے بچنے میں کامیاب ہوئے، زندگیاں بچیں اور تب سے سعودی عرب مالی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔
مجید یحیٰ کا یہ تبصرہ ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلی کے بیان سے بالکل مختلف ہے جو انہوں نے آئس لینڈ کے حالیہ دورے پر دیا۔
ڈیوڈ بیزلی نے غذا کی عالمی قیمتوں کے بحران کے خلاف خلیجی ممالک اور چین کی جانب سے خاطر خواہ کردار نہ ادا کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
ڈیوڈ بیزلی کا یہ بیان ڈبلیو ایف پی کی 2021 کی عالمی امداد کے اعداد و شمار سے بھی متصادم ہے جس میں سعودی عرب کو ساتویں اور عرب امارات کو بارہویں بڑے ڈونر کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جبکہ فی کس آمدنی کی بنیاد پر یہ ممالک ڈبلیو ایف پی کے عالمی سطح پر دو بڑے ڈونرز میں شمار ہوتے ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں ڈبلیو ایف پی نے سعودی عرب کے شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر کی جانب سے اردن میں یمنی مہاجرین کو 16.8 ملین ڈالر کی امداد اور پاکستان میں بچوں اور خواتین کے لیے نیوٹریشن پروگرام میں تعاون کا خیر مقدم کیا تھا۔
سعودی عرب نے ایسے وقت پر مدد کی جب ڈبلیو ایف پی کو اردن میں چار لاکھ 65 ہزار مہاجرین اور پاکستان میں 66 ہزار بچوں اور خواتین کی کفالت کے لیے فنڈز کے حصول میں مشکلات درپیش تھیں۔
![](/sites/default/files/pictures/October/36486/2022/screen_shot_2022-10-31_at_1.08.26_pm.png)
ڈبلیو ایف پی کے نمائندے مجید یحیٰ نے عرب ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کے ذریعے یمن کو دی گئی امداد سے پہنچنے والے فوائد کو سراہا۔
مجید یحیٰ نے بتایا کہ سعودی اور عرب امارات کی مشترکہ فنڈنگ کے یمن میں 40 ملین افراد یعنی آدھی آبادی نے اثرات محسوس کیے ہیں۔
یوکرین جنگ کے باعث اناج اور کھاد کی سپلائی اور تقسیم میں خلل پیدا ہونے سے رواں سال کے شروع میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اکثر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اقوام متحدہ اس دہائی کے آخر تک دنیا سے بھوک ختم کرنے کے ہدف کو پورا نہیں کر سکے گا، تاہم مجید یحیٰ نے امید کا اظہار کیا ہے۔
مجید یحیٰ کا کہنا ہے کہ سال 2030 تک بھوک مکمل ختم کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ممکن ہے اگر تمام ممالک مل کر کام کریں اور اگر سیاسی عزم شامل ہو۔