ایران، مظاہرے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے خاندان کو حکام کی دھمکیاں
ایران، مظاہرے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے خاندان کو حکام کی دھمکیاں
بدھ 2 نومبر 2022 18:17
غزالہ چلب کو 27 ستمبر کو شمالی ایران کے شہر آمل میں ایک احتجاج کی عکس بندی کے دوران سر پر گولی لگی تھی۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
ایران میں ایک احتجاج کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہونے والی خاتون کے خاندان کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے دھمکایا جا رہا ہے اور ان کی ہلاکت پر خاموش رہنے کا کہا گیا ہے۔
عرب نیوز نے برطانوی اخبار دی گارڈین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 33 سالہ غزالہ چلب کے والدین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’اگر انہوں نے ہلاکت کے حوالے سے آواز بلند کی تو حکام ان کی بیٹی کی لاش کو اپنے قبضے میں رکھیں گے اور دوسرے رشتہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
غزالہ چلب کو 27 ستمبر کو شمالی ایران کے شہر آمل میں ایک احتجاج کی عکس بندی کے دوران سر پر گولی لگی تھی۔ اپنی موت سے قبل وہ پانچ دن تک کوما میں رہیں تھیں۔
اپنے آخری الفاظ جو اس وقت موبائل فون پر ریکارڈ کیے گئے جب ایرانی حکام مظاہرین پر گولیاں چلا رہے تھے، میں ان کا کہنا تھا کہ ’ڈرو مت، ڈرو مت۔‘
غزالہ چلب کو گولی اس مقام پر لگی تھی جہاں یونیورسٹی کے طلبا ملک گیر مظاہروں کی حمایت میں، جن میں اب تک 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ہڑتالیں کر رہے تھے۔
ان کی خالہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہسا امینی کی ہلاکت تک ان کی بھانجی تحریک میں شامل ہونے سے گریزاں تھیں۔
غزالہ چلب کی موت کی رات آمل شہر میں ایک سرکاری عمارت میں آگ بھڑک اٹھی، جس پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا اور حکام نے آگے سے پرتشدد ردعمل دیا۔
غزالہ کی خالہ کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ عینی شاہدین نے ہمیں بتایا کہ ان کی بھانجی کو گورنر ہاؤس کی عمارت کی چھت سے گولی مار گئی تھی جو ان کے ماتھے پر لگی اور وہ فوراً زمین پر گر گئی۔ بہت سے افراد اس لمحے کے گواہ ہیں جب غزالہ کو گولی لگی۔‘