Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لبنان حزب اللہ کی ’ویٹو پاور کا یرغمال‘ بنا ہوا ہے: لبنانی ماہر معیشت

لبنان ایسا ملک ہے جس کے دارالحکومت کو پہلے 'مشرق کا پیرس' کہا جاتا تھا، فوٹو عرب نیوز
لبنان کے ماہر اقتصادیات ندیم شہادی نے بتایا ہے کہ اٹھارہ سال قبل اسی ماہ لبنان کے معروف سیاست دان اور سابق وزیراعظم  رفیق حریری کو بیروت میں خودکش ٹرک بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
عرب نیوز کے  کرنٹ افیئر ٹاک شو فرینکلی سپیکنگ  کی میزبان کیٹی جینس کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ رفیق حریری کے قتل کے بعد برسوں تک ملک میں شام اور حزب اللہ تنظیم دونوں کے اثر و رسوخ کے مخالف سیاست دانوں اور اہم شخصیات کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہنگامی فنڈز کو فعال بنانے کے لیے فوری سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ فوٹو روئٹرز

رفیق حریری سیاست میں  آنے سے پہلے تعمیرات کے شعبے سے منسلک تھے اور ملک کی  مخیر شخصیت مانے جاتے تھے جنہوں نے لبنان میں جنگ اور تنازعات کے متاثرین کے لیے لاکھوں ڈالر عطیہ کیے اور بعد میں خانہ جنگی کے خاتمے اور دارالحکومت کی تعمیر نو میں اہم کردار بھی ادا کیا۔
ندیم شہادی نے بتایا کہ رفیق حریری کا قتل ڈرامائی سیاسی تبدیلی اور لبنان میں جمہوریت کا مطالبہ کرنے والی تحریکوں کا آغاز تھا۔
بین الاقوامی ٹربیونل کی جانب سے حزب اللہ کے ارکان کو رفیق حریری کے قتل کا مجرم قرار دینے اور ان کی موت کی تحقیقات کے بھرپور مطالبات کے باوجود ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروپ نے لبنان پر اپنی گرفت مضبوط  رکھی اور ملک کو سنگین حالت  کا سامنا کرنا پڑا۔
سپیشل ٹربیونل برائے لبنان اور آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن لبنان آئے اور انہیں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد نتیجہ پیش کرنے میں تقریباً 15 سال کاعرصہ لگا۔

لبنان اور اس کے ادارے حزب اللہ کے 'ویٹو پاور کے یرغمال' ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

ندیم شہادی کے بقول حریری کے مقدمے میں سزا کے باوجود  لبنان پر حزب اللہ کے اثر و رسوخ کا مطلب یہ ہے کہ اس قتل کے اصل مجرموں کو سزا نہیں دی جائے گی اور یہ گروپ ملک کو یرغمال بنائے رکھے گا۔
لبنان کے مختلف سیاسی اور اقتصادی بحرانوں نے حالیہ برسوں میں شدت اختیار کی ہے، ملک میں افراط زر2021 میں دنیا کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور لبنانی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی واقع ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ لبنان ایک ایسا ملک ہے جس کے دارالحکومت کو پہلے 'مشرق کا پیرس' کہا جاتا تھا لیکن اب یہاں دو تہائی آبادی غربت کا شکار ہے، یہاں بجلی کی مستقل بندش اور بنیادی ضروریات جیسے ادویات اور پانی کی قلت عام ہوتی جارہی ہے۔

ملک میں افراط زر2021 میں دنیا کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ فوٹو عرب نیوز

لبنان میں عدم استحکام حالیہ برسوں میں عالمی وبا کورونا  کے تناظر میں بڑا ہے اور ساتھ ہی 2020 کے بیروت بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے جس میں سیکڑوں افراد ہلاک، سیکڑوں زخمی اور  ہزاروں بے گھر ہوئے اور بڑے پیمانے پر معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ آدھے سے زیادہ  شہر متاثر ہوا۔
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں بین الاقوامی تنظیمیں یہاں اس ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف مہم چلاتی رہی ہیں اور انہوں نے دھماکے کی تحقیقات کو ایک "مذاق" قرار دیا ہے۔
ندیم شہادی نے دعویٰ کیا کہ لبنان کی تاریخی طور پر 'بہت مستحکم اور فعال عدلیہ' کے باوجود حزب اللہ نے تحقیقات میں مداخلت کی ہے۔
آفات کے اس سلسلے نے بہت سے لبنانیوں کو پورے سیاسی طبقے کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا ہے جسے ندیم شہادی ایک 'مضحکہ خیز مطالبہ' کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ماہر اقتصادیات کی رائے میں لبنان کا سیاسی نظام 'فرقہ واریت' نہیں بلکہ سیاسی نظام ہے جس کی بنیاد کمیونٹیز کے درمیان سماجی معاہدے پر ہے۔

رفیق حریری کے قتل کے بعد سیاست دانوں اور اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ فوٹو روئٹرز

ماہر اقتصادیات نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک بینکنگ سسٹم ہے جو خطے کا بینکنگ مرکز تھا، ہماری سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ وہ ستون ہیں جو لبنان کو ممتاز کرتے ہیں اور انقلاب تقریباً ان تمام ستونوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
لبنان عام انتخابات کے آٹھ ماہ بعد بھی اپنے صدر یا فعال پارلیمان کے حوالے سے ابھی تک اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 3 بلین ڈالر کے ہنگامی فنڈز کو فعال بنانے کے لیے فوری سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن لبنان کے سیاسی نظام کی دھجیاں اڑانے اور اس کے اراکین پارلیمنٹ باقاعدگی سے واک آؤٹ کر رہے ہیں تا کہ اس فنڈ  تک رسائی ممکن نہ ہو سکے۔
ندیم شہادی نے مزید کہا کہ لبنان اور اس کے ادارے حزب اللہ کے 'ویٹو پاور کے یرغمال' ہیں جس نے قتل و غارت گری اور سیاسی اتحاد بنانے کے ذریعے لبنان میں قدم جما رکھے ہیں۔

شیئر: