گزشتہ ماہ تلواروں، چھریوں اور بندوقوں سے لیس امرت پال سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پولیس سٹیشن پر اس وقت دھاوا بولا جب ان کے ایک ساتھی کو مبینہ حملے اور اغوا کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
حملے میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد حکام پر بھی امرت پال سنگھ کے خلاف کارروائی کا دباؤ بڑھا تھا۔
سنیچر کو پولیس نے امرت پال سنگھ کو ڈھونڈنے اور گرفتار کرنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
پنجاب پولیس نے ٹویٹ کیا کہ اس نے ایک بڑے کریک ڈاؤن میں 78 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اتوار کو پنجاب اور خاص طور پر دیہی علاقوں او امرت پال سنگھ کے گاؤں جلوپور میں پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔
امرت پال سنگھ وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے سربراہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پولیس کا کہنا ہے کہ امرت پال سنگھ کی تلاش جاری ہے اور صورتحال کنٹرول میں ہے۔ پولیس نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ افواہوں پر یقین نہ کریں۔
مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ پیر کی دوپہر تک پنجاب کی حکومت نے موبائل انٹرنیٹ بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سڑکوں پر تشدد کے پھیلاؤ کے لیے سوشل میڈیا کو افواہوں اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انڈین حکام خاص طور پر کشمیر میں اکثر انٹرنیٹ کی سروس بند کر دیتے ہیں۔
سکھ آبادی کی اکثریتی ریاست پنجاب کو 1980 اور 1990 میں خالصتان کے لیے ایک پرتشدد علیحدگی پسند تحریک نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔