دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی سماجی رابطوں کی کمپنی ٹوئٹر نے ویریفکیشن فیس نہ دینے پر معروف امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا بلیو ٹِک ختم کر دیا ہے۔
2009 میں بلیو ٹک کو ٹوئٹر پر پہلی مرتبہ متعارف کروایا گیا تھا جس کا مقصد ویب سائٹ پر مشہور لوگوں، حکومتی اداروں سمیت میڈیا اور کاروباری اکاؤنٹس کی تصدیق کرنا تھی۔
مزید پڑھیں
-
سیٹلائٹس کی روشنی قدرتی ماحول کے لیے ’بڑا خطرہ‘
Node ID: 752016
-
ٹوئٹر کی مالیت 44 ارب سے کم ہو کر 20 ارب ڈالر تک آگئی
Node ID: 753566
-
ٹوئٹر کسی بھی مشہور صارف کا ہینڈل خود ہی ویریفائی کر کے اسے بلیو ٹک دے دیتا تھا تاہم اس کے بعد ٹوئٹر نے اپنی پالیسی نرم کرتے ہوئے صارفین کو بلیو ٹک حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کا آپشن دیا تھا جس کے بعد عام صارفین بھی کچھ تصدیقی مراحل سے گزر کر بلیو ٹک حاصل کر سکتے تھے۔
ایلون مسک کے ٹوئٹر خریدنے کے بعد اس ویب سائٹ نے صارفین کے لیے نئی پالیسی بنائی جس کے تحت صارفین اب پیسے دے کر بلیو ٹک خرید سکیں گے اور جو اس کی فیس نہیں دے گا اس کا یہ ویریفکیشن بیج ختم کر دیا جائے گا۔
اسی سلسلے میں وائٹ ہاؤس اور معروف امریکی باسکٹ بال پلیئر لیبرون جیمز کی طرح بلیو ٹک کے لیے پیسے نہ دینے کے بعد اب ٹوئٹر نے نیو یارک ٹائمز کا بلیو ٹک بھی ختم کر دیا ہے۔
ایلون مسک کی کمپنی ٹوئٹر نے بلیو ٹک والے تمام صارفین کو 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ اس کے بعد فیس نہ دینے والے اکاؤںٹس کے بلیو ٹک ختم کر دیے جائیں گے۔
The real tragedy of @NYTimes is that their propaganda isn’t even interesting
— Elon Musk (@elonmusk) April 2, 2023
تاہم صارفین کو یہ آپشن بھی دیا گیا کہ اگر وہ اپنا بلیو ٹک خود ختم کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی وقت کر سکتے ہیں۔
ایلون مسک نے اپنی ٹویٹ میں نیو یارک ٹائمز کے بلیو ٹک ختم ہونے پر انہیں مزید طنز اور تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’نیو یارک ٹائمز کا اصل غم یہ ہے کہ اُن کا پراپیگنڈہ بھی مزیدار نہیں ہے۔‘
اپنی دوسری ٹویٹ میں مسک کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ ان کا مواد ایسے ہے جیسے اسہال کی بیماری۔ بالکل بھی پڑھا نہیں جاتا۔ ان کے پاس اصلی فالورز زیادہ ہوتے اگر وہ اپنے بہترین آرٹیکل لکھتے۔ یہ بات سب پبلیکیشنز کے لیے ہے۔‘
Also, their feed is the Twitter equivalent of diarrhea. It’s unreadable.
They would have far more real followers if they only posted their top articles.
Same applies to all publications.
— Elon Musk (@elonmusk) April 2, 2023
دوسری جانب نیو یارک ٹائمز کے ذیلی اکاؤنٹ نیو یارک ٹائمز بُکس کی پروفائل پر ایک مرتبہ پھر سے بلیو ٹک نظر آ رہا ہے جبکہ وائٹ ہاؤس کی پروفائل پر گرے ٹک لگا ہوا ہے جو کہ حکومتی اداروں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
ایلون مسک اور نیو یارک ٹائمز کے درمیان بلیو ٹک کے تنازع پر عوامی ردِ عمل بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
جیفری فلٌپس لکھتے ہیں کہ ’کیا واقعے ایسا ہے؟ یا آپ نے اس وجہ سے ختم کر دیا کہ وہ آپ کو فیس نہیں دے رہے۔ کسی کو بھی ٹوئٹر کے لیے پیسے نہیں دینے چاہیے۔‘
.@nytimes has 10 mln paid subscribers who trust its journalism. It made $2 bln in revenue last year and is more profitable than ever.
Meanwhile less than 300,000 people have opted to pay for Twitter's blue tick, advertisers have fled and Musk has torched his brand.
— Anirvan Ghosh (@anirvanghosh) April 2, 2023
انرون گھوش نے اپنی ٹویٹ میں تبصرہ کیا کہ ’نیو یارک ٹائمز کے 10 کروڑ سبسکرائبرز ہیں جو ان کی صحافت پر بھروسہ رکھتے ہیںَ۔ انہوں نے گزشتہ سال دو ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے جو کہ سب سے زیادہ ہے۔ لیکن اس دوران 3 لاکھ افراد نے ٹوئٹر کا بلیو ٹک لینے سے انکار کر دیا ہے، اشتہارات والے بھاگ گئے ہیں اور مسک نے اپنے برینڈ کو سلگا دیا ہے۔‘
Elon Musk has revoked the New York Times’ Twitter verification badge (Fox News still has its badge).
Be extra careful what news you share, cause it might come from a fake version of a publication.
What a mess.
— Nick Hedley (@nickhedley) April 2, 2023
نِک ہیڈلی لکھتے ہیں کہ ’ایلون مسک نے نیو یارک ٹائمز کا ویریفیکیشن بیج ختم کر دیا ہے جبکہ فاکس نیوز کے پاس ابھی بھی بیج ہے۔ خبر پھیلاتے وقت ضرورت سے زیادہ محتاط رہیے گا کیونکہ یہ کسی جعلی پبلیکیشن سے بھی آ سکتی ہے۔ کیا افراتفری ہے۔‘
The real tragedy is that the only brand he’s hurting is his own. https://t.co/Q7yxN91VTs
— Alistair Coleman (@alistaircoleman) April 2, 2023