شہروں میں خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی قلت انتہائی شدید ہو رہی ہے۔ فوٹو عرب نیوز
سوڈان میں متحارب دھڑوں کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود منگل کو رات دیر گئے لڑائی ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق سوڈان کی مسلح افواج (ایس اے ایف)اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز ( آر ایس ایف) نے منگل کو شروع ہونے والی 72 گھنٹے کی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
دارالحکومت خرطوم کو زیادہ تر لوگوں نے خیرباد کہہ دیا ہے تا ہم دریائے نیل پر خرطوم کے قریبی شہروں میں سے ایک ام درمان میں رات کے بعد فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
رات دیر گئے ہونے والی لڑائی میں سوڈانی فوج کی جانب سے ریپڈ سپورٹ فورسز کی چوکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا گیا ہے۔
سوڈانی فوج نے دریائے نیل کے قریب واقع فیول ریفائنری سے جنگجوؤں کو پیچھے ہٹانے کے لیے ڈرون استعمال کیا۔
دریں اثنا سوڈان میں 15 اپریل سے فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان ہونے والی لڑائی کے سبب ملک کے نظام کی جمہوریت کی طرف منتقلی رک گئی ہے۔
نیم فوجی دستوں نے رہائشی علاقوں کا رخ کر لیا ہے جب کہ فوج کی جانب سے انہیں فضا سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس لڑائی نے رہائشی علاقوں کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔
سوڈان کی 46 ملین آبادی میں سے ایک تہائی پہلے ہی امداد پر انحصار کرتی ہے ایسے میں
فضائی حملوں اور توپ خانے کی جنگ سے کم از کم 459 افراد ہلاک اور چار ہزار سے زائد زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
موجودہ حالات میں خوراک کی تقسیم بھی محدود ہو رہی ہے جب کہ ہسپتال بھی گولہ باری کی زد میں ہیں۔
ام درمان شہر میں موجود الرومی میڈیکل سنٹر کے اہلکار نے بتایا ہے کہ منگل کے روز میڈیکل سنٹر کے اندر گرنے والا گولا پھٹنے سے کم از کم 13 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
سوڈان کے سابق وزیر احمد ہارون جو دارفور میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ جیل میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر انہیں اور دیگر افراد کو خرطوم کی کوبر جیل سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں جیل توڑنے کی خبروں کے بعد احمد ہارون نے بتایا کہ کوبر جیل کے اندر کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔
اتوار کو جیل سے پوسٹ کیے گئے ایک ریکارڈ شدہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ جیل میں پانی اور خوراک کی قلت کے باعث ایک ہفتے بعد قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر احمد ہارون کے ساتھ دیگر رہائی پانے والوں نے سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر کے ماتحت خدمات انجام دی تھیں۔
دوسری جانب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سوڈان میں متحارب فریقوں میں سے ایک نے خرطوم میں صحت سے متعلق دی جانے والی سہولتوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
صحت مرکز میں ذخیرہ کی گئی خسرے اور ہیضے کی ویکسین کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیاہے۔
افریقہ کے تیسرے سب سے بڑے ملک سوڈان سے بین الاقوامی سفارت خانوں اور امدادی کارکنوں کی جانب سے ملک چھوڑنے سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر جمعرات کو ختم ہونے والی تین روزہ جنگ بندی کا معاہدہ برقرار نہ رہا تو رہائشی شہریوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
امریکی حکومت کے ترجمان کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی قومی سلامتی کی ٹیم سوڈان کے حریف فوجی رہنماؤں سے لڑائی ختم کرنے اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
سوڈان سے تازہ ترین اطلاعات میں واضح کیا گیا ہے کہ آپسی جنگ نے ہسپتالوں اور دیگر ضروری خدمات کو مفلوج کر دیا ہے اور بہت سے لوگ گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں خوراک اور پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر (او سی ایچ اے) نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی قلت انتہائی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
بنیادی اشیاء بشمول بوتل بند پانی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور حفاظتی وجوہ کی بناء پر ہمیں امدادی سرگرمیاں کم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے پیش گوئی کی ہے کہ سوڈان سے لاکھوں افراد کے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے کی صورتحال بن سکتی ہے۔
خرطوم میں موجود سوڈانی شہری 27سالہ سمعیہ یاسین نے غیر ملکی طاقتوں پر خود غرض ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے وقت دنیا ہمیں کیوں چھوڑ رہی ہے؟
لڑائی شروع ہونے کے بعد سے ہزاروں افراد ہمسایہ ممالک چاڈ، مصر، ایتھوپیا اور جنوبی سوڈان کوچ کر گئے ہیں۔
کاروں اور بسوں میں شہریوں کے خرطوم سے انخلاء کے بعد افریقہ کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن سٹی کی سڑکیں روزمرہ زندگی سے بڑی حد تک خالی ہیں۔
شہر میں رہ جانے والے افراد اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے ہیں جب کہ جنگجو باہر سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔
فرانسیسی صحافی آگسٹین پاسلی نے سوڈان سے مصر میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فون پر بتایا ہے کہ صورتحال بہت خطرناک ہو گئی ہے۔
اشیائے خوردونوش کی دکانوں میں کچھ نہیں بچا، نہ پانی، نہ کھانا اور اب لوگ کلہاڑیوں اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر باہر نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔
کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ خرطوم کے موجودہ حالات کے پیش نظر دارفور کے وسیع اور بڑے صحرائی مغربی علاقے میں بھی جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے جو پہلے ہی دو دہائیوں پرانے تنازعے کا شکار ہے۔
برطانیہ نے خرطوم کے شمال میں ایک ہوائی اڈے سے فوجی پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں کا بڑے پیمانے پر انخلاء شروع کر دیا ہے۔
فرانس اور جرمنی نے کہا ہے کہ ہر ایک نے مختلف قومیتوں کے 500 سے زیادہ افراد کو نکالا ہے ، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انخلا کے دوران ایک فرانسیسی کراس فائر کی زد میں آ گیا تھا۔