Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کے پی کے میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، ایک ماہ میں 46 عسکریت پسند ہلاک

محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک افسر کے مطابق عسکریت پسندوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کر کے آپریشن کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: کے پی پولیس)
خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز اور پولیس کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں مگر گزشتہ ایک ماہ سے آپریشن میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
سکیورٹی فورسز کی ایک ماہ کی رپورٹ کے مطابق اپریل کے مہینے میں انٹیلجنس کی بنیاد پر 136 آپریشن ضم قبائلی اضلاع باجوڑ، خیبر، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان کے علاوہ سوات، لکی مروت اور بنوں میں ہوئے۔
سکیورٹی فورسز نے 46 عسکریت پسندوں کو ہلاک جبکہ 306 کو گرفتار کیا جن کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیموں سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق مختلف کارروائیوں میں جنوبی وزیرستان میں 19، شمالی وزیرستان میں چھ، باجوڑ میں چھ، لکی مروت میں پانچ، بنوں میں چار، خیبر اور سوات میں تین تین عسکریت پسند مارے گئے۔
سکیورٹی فورسز کے مطابق مختلف کارروائیوں میں ایک ماہ کے دوران دو ہزار 975 کلاشنکوف، 18 ہزار 388 رائفلز، 159 عدد پستول، دو ہزار 274 بھاری ہتھیار اور 83 عدد 12ایم ایم پستول برآمد کیے گئے، جبکہ 74 راکٹ لانچر، 67 دستی بم، آٹھ مارٹر گولے، پانچ ہلکی مشین گنوں سمیت چار آئی ای ڈیز بھی اپنے قبضے میں لیے گئے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ’لکی مروت، کوہاٹ، بنوں، صوابی اور پشاور کے نواحی علاقوں میں آپریشن جاری ہیں جس میں اب تک متعدد عسکریت پسند ہلاک اور گرفتار کیے گئے ہیں۔‘

ڈی پی او ٹانک وقار خان کے مطابق پولیس کی بہترین جوابی کارروائی کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے متعدد حملے پسپا ہوئے ہیں۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

انہوں نے مزید بتایا کہ کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسند مختلف مقامات میں چھپے ہوئے ہیں تاہم ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کر کے آپریشن کیا جا رہا ہے۔
ڈی پی او ضلع ٹانک وقار خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سی ٹی ڈی اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہیں جس میں اب تک چار عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیس کو جدید اسلحہ مہیا کیا گیا ہے جبکہ پولیس چوکیوں میں بھی اب اضافہ کیا گیا ہے۔
ڈی پی او ٹانک وقار خان کے مطابق پولیس کی بہترین جوابی کارروائی کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے متعدد حملے پسپا ہوئے ہیں۔

صوبائی حکومت کا موقف

اس حوالے سے نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال نے کہا ہے کہ جہاں دہشت گرد موجود ہیں صرف وہاں ٹارگیٹڈ آپریشن ہورہے ہیں جس میں پولیس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کوشش یہ ہے کہ امن کو خراب کرنے والے عناصر کا صفایا کیا جائے تاکہ پرامن ماحول میں الیکشن منعقد ہو۔‘

دہشت گردی کے خلاف ضلع لکی مروت میں 29 اپریل کو امن جلسہ منعقد کیا گیا۔ (فوٹو: جمشید مروت)

فیروز جمال کا کہنا تھا کہ موجودہ آپریشن کی وجہ سے کسی شہری کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جا رہا ہے۔

سکیورٹی فورسز پر حملہ

سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے ردعمل میں عسکریت پسندوں کی جانب سے بھی حملے کیے گئے ہیں۔
جمعرات 27 اپریل کو لکی مروت میں خودکش حملے سمیت تین مختلف جگہوں پر حملے کیے گئے، جن میں تین سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ جوابی کارروائی میں سات عسکریت پسند مارے گئے۔
عسکریت پسندوں کی جانب سے 27 اپریل کی رات بنوں میں بھی حملہ کیا گیا مگر پولیس اور سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے حملہ پسپا کر دیا۔

امن جلسوں کا انعقاد

دہشت گردی کے خلاف ضلع لکی مروت میں سنیچر 29 اپریل کو امن جلسہ منعقد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔
شرکا نے مطالبہ کیا کہ آپریشن کر کے تمام عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں آپریشن سے پہلے علاقے کے عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے۔

میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق رواں برس انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں 1535 عسکریت پسند مارے گئے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

دوسری جانب بدامنی کے خلاف سوات میں بھی امن جلسہ کیا گیا۔
25 اپریل کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ رواں برس انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں 1535 عسکریت پسند مارے گئے جبکہ 137 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 117 زخمی ہوئے۔

شیئر: