ترین کی نواز سے متوقع ملاقات: جنوبی پنجاب میں کون کس سے کیا کھیل رہا ہے؟
ترین کی نواز سے متوقع ملاقات: جنوبی پنجاب میں کون کس سے کیا کھیل رہا ہے؟
جمعہ 16 جون 2023 5:31
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
جہانگیر ترین کے کار خاص عون چودہری شہباز شریف کی حکومت کے مشیر بھی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
جہانگیر ترین اپنی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کا اعلان کرنے کے بعد لندن چلے گئے ہیں جہاں ان کی نواز شریف سے ملاقات کے بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ملاقات مستقبل کی پاکستانی سیاست اور انتخابات کے نتائج کے متعلق نشاندہی کرے گی، کیونکہ اس وقت بڑی سیاسی قوتیں جہانگیر ترین کی نو تشکیل شدہ جماعت کے ذریعے انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس وقت کے سیاسی منظر نامے کے مطابق بظاہر امکانات یہ ہیں کہ آئندہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں مقابلہ ہو گا، اور دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ ایک تیسرے سیاسی گروہ کو ساتھ ملا کر اپنے بنیادی حریف سے زیادہ نشستیں حاصل کی جائیں۔
اس مقصد کے لیے جہاں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے بیشتر سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر وہاں سے زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں پاکستان مسلم لیگ ن بھی اس بات کی خواہاں ہے کہ وہ چھوٹے سیاسی دھڑوں کو ساتھ ملا کر اپنی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔
ایسے میں جہانگیر ترین کی جماعت جو ابھی پی ٹی آئی چھوڑنے والے اور جنوبی پنجاب کے بااثر سیاستدانوں کا ملغوبہ ہے، کی طرف بڑی جماعتوں کا رحجان فطری امر ہے۔
جہانگیر ترین کے ساتھی: کوئی ن لیگ کا دشمن اور کوئی شہباز کا مشیر
جہانگیر ترین کے شریف برادران سے تعلقات اور یہ حقیقت کہ ان کے کار خاص عون چودہری ابھی بھی شہباز شریف کی حکومت کے مشیر ہیں، اس خیال کو تقویت بخشتا ہے کہ مسلم لیگ ن استحکام پاکستان پارٹی کو اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔
دوسری طرف کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت میں ابھی تک کوئی ایسا بڑا چہرہ شامل نہیں ہوا جو بذات خود اپنی سیٹ باآسانی جیت سکے، اس لیے انہیں بھی مسلم لیگ ن کی ضرورت ہے اور وہ ان سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دے سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی اپنی جماعت اس پر اختلافات کا شکار نہ ہو، کیونکہ اس کی اکثریت ابھی پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر آئی ہے اور پچھلے کچھ برسوں سے ان کا اوڑھنا بچھونا ن لیگ اور پی ڈی ایم پر تنقید رہا ہے۔
فیصلہ اب بھی پی ٹی آئی کے ووٹر کا
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ ن لیگ استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کی حوصلہ افزائی اس لیے کر رہی ہے کہ اس میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے سابقہ اراکین کی وجہ سے تحریک انصاف کمزور ہو رہی ہے اور ان کا نمبر ایک ایجنڈا تحریک انصاف کو کمزور کرنا ہے۔
’استحکام پاکستان پارٹی پی ٹی آئی کا ووٹ بینک لینا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں اپنی وہ مضبوط پوزیشن واپس لے جو 1970 سے 2008 تک اس کی رہی ہے اور ن لیگ چاہتی ہے کہ اس کو 1990 والی طاقت مل جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسے میں فیصلہ پی ٹی آئی کا ووٹر کرے گا کہ وہ کس طرف جاتا ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی پی ٹی آئی کا ووٹر لائے گا، اس لیے اس بات کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ آئی پی پی بھی بالآخر ن لیگ اور پی ڈی ایم مخالف بیانیے پر تکیہ کرے۔‘
’جہانگیر ترین کی خواہشات بہت بڑی ہیں‘
شریف خاندان کے جہانگیر ترین سے تعلقات ایک طرف لیکن سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین کی اپنی خواہشات بہت بڑی ہیں اور وہ اپنی جماعت کو پی ڈی ایم کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں۔
’ان کی نظر ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کے ووٹ بینک پر ہے۔ یہ ان دونوں جماعتوں کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کا جنوبی پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور وہ گزشتہ سال اس بندوبست کے باوجود تمام انتخابات ہار گئے تھے۔
’پی ڈی ایم جماعتوں کی بقا انتخابی اتحاد میں ہی ہے‘
اس کے برعکس انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی احمد اعجاز سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم جماعتوں کی بقا آپس کے اتحاد میں ہی ہے اور استحکام پارٹی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
’اس کا اتنا وزن نہیں ہے جتنے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے جو لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر آئے ہیں اور جنہوں نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے وہ درجہ اول کے سیاستدان نہیں ہیں۔ بہت سارے تو ان میں سے رکن قومی اسمبلی بھی نہیں رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس جماعت کے خدوخال نہیں بن سکے۔ اس میں جانے والے اکثر سیاستدان صوبائی سطح کے ہیں اور وہ بھی وہ جو اپنی نشستیں اپنے بل بوتے پر نہیں جیت سکتے۔‘
احمد اعجاز کے مطابق ’جنوبی پنجاب کے اچھے امیدوار اب بھی تحریک انصاف کے پاس ہیں۔ مقابلہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا ہے اور ووٹ بینک بھی انہی کا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن اب بھی بہت کمزور ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کئی لوگوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ واپس کر دیے تھے کیونکہ ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ جماعت انہیں انتخاب نہیں جتوا سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت کی حکومتی اتحادی جماعتیں اگلے انتخابات میں اسی صورت میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں اگر وہ پی ڈی ایم اتحاد کے ذریعے انتخابات میں حصہ لیں۔
’نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں۔ کیونکہ بالخصوص جنوبی پنجاب میں بہت سے بڑے الیکٹیبلز اب بھی آزاد حیثیت میں میدان میں اتریں گے اور ان کی کامیابی کے کافی امکانات ہیں۔‘