اس گاؤں کا نام دومیشی ابھیال ہے جو مظفرآباد شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر راولپنڈی سے مظفرآباد جانے والی مرکزی شاہراہ کے سامنے دریائے جہلم کے دوسرے کنارے پر واقع ہے۔
اس علاقے کو ایک کیبل برج (رسیوں سے ساتھ معلق کیا گیا ایک پل) مظفرآباد سے ملاتا ہے۔ پل عبور کرنے کے بعد ڈونگ نامی گاؤں سے گزر کر متاثرہ علاقے تک پہنچا جا سکتا ہے۔
ابھیال گاؤں کے ایک جانب ذرا اوپر پہاڑ میں کچھ عرصہ قبل دراڑ ظاہر ہوئی اور پھر یہاں کی زمین آہستہ آہستہ نیچے دریا کی جانب سرکنا شروع ہو گئی۔
جولائی کے آخری دو دن میں جب خطرہ زیادہ بڑھنے لگا تو مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں کا سامان ذرا فاصلے پر منتقل کرنا شروع کیا۔ ابھی وہ اپنا مال و اسباب منتقل کر رہے تھے کہ یکم اگست کی شام لینڈ سلائیڈنگ میں تیزی آئی اور پھر مکینوں کی آںکھوں کے سامنے ان کے گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
اس واقعے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن 12 خاندان اپنی چھتوں سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اس واقعے کے اگلے روز یونیورسٹی آف ’آزاد جموں کشمیر‘ کے شعبہ ارضیات کی ٹیم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور پھر اپنے مشاہدات کی بنیاد پر رپورٹ مرتب کی ہے۔
دومیشی ابھیال میں لینڈ سلائیڈنگ کا جائزہ لینے کے لیے جانے والی ماہرین کی ٹیم میں ڈاکٹر محمد بشارت، ڈاکٹر محمد طیب ریاض اور خواجہ شعیب احمد شامل تھے۔
ماہرین ارضیات کی رپورٹ میں کیا ہے؟
کشمیر کی یونیورسٹی کے جیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ماہرین نے 10 صفحات مشتمل اپنی رپورٹ میں متاثرہ علاقے کی تصاویر کے ساتھ تفصیل، ممکنہ خطرات اور تجاویز شامل کی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لینڈ سلائیڈ دائروی انداز میں متحرک ہے اور یہ انسانی زندگیوں، زمین اور وہاں کی عمارات کے لیے بڑے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 12 مکانات، سڑک اور درخت سب ملیا میٹ ہو گئے ہیں اور اس خاص متاثرہ جگہ کے اردگرد واقعے مکانوں میں بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’لینڈ سلائیڈ اوپر سے لے کر نیچے دریا تک 500 میٹر طویل ہے۔ متاثرہ علاقے کی لمبائی 360 میٹر اور چوڑائی 200 میٹر ہے۔‘
ماہرین کے مطابق ’لینڈسلائیڈ مسلسل متحرک ہے جس مقامی آبادی اور انفراسٹرکچر کے لیے خطرے کا باعث ہے۔‘
’اگر لینڈ سلائیڈ اسی رفتار سے متحرک رہی تو نیچے دریائے جہلم کے بہاؤ میں بھی رکاوٹ آ سکتی ہے جس سے ملک کے زیریں علاقوں میں سیلاب آنے کا خطرہ بھی ہے۔‘
ماہرین نے اس علاقے کو ‘ہائی رسک زون‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی آبادی کا فوری طور پر انخلاء ضروری ہے۔
لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ کیا تھی؟
ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ یہ لینڈ سلائیڈ جہلم فالٹ لائن پر واقع ہے جو دریا کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ فالٹ لائن ہزارہ اور مری فارمیشن کے درمیان واقع ہے اور یہاں کے پہاڑوں کی ساخت ایسی جو مختلف عوامل کے تحت اپنی مضبوطی کھو دیتی ہے۔
اس لینڈ سلائیڈ کی ایک وجہ تو اس کا جہلم فالٹ لائن پر واقع ہونا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جولائی میں ہونے والی مون سون بارشوں کی وجہ سے یہاں کی زمین میں بہت زیادہ پانی جذب ہوا ہے جس کی وجہ سے مٹی بھاری ہو کر ڈھلوان کی جانب پھسلنا شروع ہو گئی۔
دوسرا اس سلائیڈ کا 45 کے زوایے پر ہونا ہے، ایسی صورت میں بارش اور دیگر عوامل کے اثر انداز ہونے سے نقصان بڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
اس مقام کے دونوں جانب واقع ہزارہ اور مری فارمیشنز کے مختلف موسمی حالات بھی زمینی کٹاؤ کا سبب بنتے ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں ’شدید خطرے کے شکار‘ اس علاقے کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ لینڈ سلائیڈ سے نکاسی آب (پانی نکالنے) کے لیے الگ راستے بنائے جائیں تاکہ مزید پانی دراڑوں میں جذب نہ ہو۔
اس کے علاوہ کچھ عارضی اقدامات جیسا کہ حفاظتی دیواریں اور چٹانوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔
مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟
محمد قدیر ابھیال گاؤں کے رہائشی ہیں اور ان کا گھر بھی لینڈ سلائیڈ کی نذر ہو چکا ہے۔ وہ ان دنوں اپنے خاندان کے افراد کی متبادل محفوظ مقام میں منتقلی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
محمد قدیر نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’تباہ ہونے والے گاؤں کا وسطی حصہ اب بھی مسلسل دریا کی جانب جانب سِرک رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تک تباہ ہونے والے گھروں کے مکین اپنے مال مویشیوں سمیت اس علاقے کے قریب واقع اپنے عزیزوں کے گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔‘
کیا حکومت نے کوئی متبادل جگہ فراہم کی ہے؟ اس سوال کے جواب میں محمد قدیر نے بتایا کہ ’ضلعی انتظامیہ نے ابھیال گاؤں کے بالکل سامنے دریا کے اس پار چروایا اصغر آباد کے قریب ’بٹنگیاں‘ نامی علاقے میں منتقل ہونے کو کہا ہے۔‘
’لیکن ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئی جگہ کا ماہرین ارضیات کی مدد سے جائزہ لیں تاکہ ہم مطمئن ہو کر نئی جگہ اپنی زندگی دوبارہ سے تعمیر کریں۔‘
’بس ابھی تو ہم انتظار میں بیٹھے ہیں اور امید ہے کہ کچھ انتظام ہو ہی جائے گا۔‘
ضلعی انتظامیہ کا موقف
مظفرآباد کے ڈپٹی کمشنر طاہر ممتاز نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’ہم نے متاثرین جو عارضی رہائش کے لیے خمیے بھی فراہم کیے ہیں اور تین دن تک ان تمام 12 خاندانوں کو تیار کھانا بھی دیا ہے۔‘
’اب متاثرین کے لیے مزید 10 دن کے کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔‘
اپنے گھروں سے محروم ہو جانے والوں کی آباد کاری سے متعلق سوال کے جواب میں ڈپٹی کمشنر طاہر ممتاز کا کہنا تھا کہ ’ہم انہیں متبادل جگہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جلد جیالوجسٹ کی ٹیم اور سنٹرل ڈیزائن آفس (سی ڈی او) کے ماہرین نئی جگہ کا معائنہ بھی کریں گے۔‘
’ہم متعلقہ ماہرین کی رپورٹ کے بعد متاثرین کو نئی جگہ منتقل کر دیں گے۔ اس معائنے کا مقصد یہی ہے کہ آئندہ ان شہریوں کو اس طرح کے مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘