Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور جو اپنے باسیوں کے اندر بستا ہے!

ہر شہر کی اپنی ایک روح ہوتی ہے اور لاہور کی روح شاید توانائی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
فارسی کا ایک شعر ملکہ ہندوستان نور جہاں سے منسوب ہے :
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جان دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یہ شہر لاہور ایک شہر نہیں۔ رومانس کا نام ہے۔ اگر اصفہان کو ’نصف جہان‘ کہا جاتا ہے تو اہل لاہور کے لیے یہ شہر ایک مکمل جہان کا نام ہے۔
لاہور محبتوں کا شہر ہے۔ آپ کچھ عرصہ یہاں رہیں، ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کو محبت نہ ہو اور یہ محبت کسی شخص سے نہیں، تو اس شہر بے مثال کے گلی کوچوں، در و دیوار سے تو ہو ہی جائے گی۔
لاہور کہانیوں کا شہر ہے۔ یہاں کیسے کیسے کہانی کار نہیں رہے، شاعر، مصور، ادیب۔
ہر شہر کی اپنی ایک روح ہوتی ہے اور لاہور کی روح شاید توانائی ہے، جو تخلیق پر مجبور کرتی ہے، پھر اس کا تعلق فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبہ سے ہو۔ اس شہر نے جو بھی یہاں آیا اس کو بھرپور اپنایا اور اس کو پہچان دی۔
سیالکوٹ کے محمد اقبال کو شاعر مشرق بنا دیا۔ وزیر آباد کے فیض احمد کو فیض احمد فیض، خوشاب کے احمد شاہ کو احمد ندیم قاسمی بنا دیا، جالندھر کے شیر محمد کو ابن انشا، بمبئی کے سعادت حسن کو منٹو اور قصور کی اللہ وسائی کو ملکہ ترنم اسی شہر نے بنایا۔
اور کتنے نام گنواؤں: انتظار حسین، منیر نیازی، ناصر کاظمی، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، واصف علی واصف، ساغر صدیقی، صوفی تبسم، سب کی پہچان اسی شہر طلسمات کی دین ہے۔
یہ شہر ادب ہے، یہ شہر فن و ہنر ہے۔
قدیم شہروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مذہب تو وہاں کے باسیوں کا ہوتا ہے۔ باسی مذہب تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ قرطبہ: کبھی رومی، کبھی عیسائی تو کبھی مسلمان۔ یوں ہی استنبول، بلخ، دمشق، بابل، بیت المقدس، سب شہر الگ عقیدوں کے چہرے والے، لاہور بھی کبھی جین مت، کبھی افغان مسلمان اور کبھی سکھ راجدھانی، اور پھر سلطنت انگریز صاحب بہادر کی اور تا دم تحریر ایک مسلمان شہر، لیکن اس سب میں جو مستقل ہے وہ اس شہر کے باسیوں کی زندہ دلی ہے، جو ضرب المثل بن گئی ہے۔
کیا جانیے کل کیا ہو گا ، لیکن جو بھی ہو، لاہور ہمیشہ لاہور ہی رہے گا۔

قصور کی اللہ وسائی کو ملکہ ترنم اسی شہر نے بنایا۔ (فوٹو: یوٹیوب)

سعادت حسن منٹو سے منسوب الفاظ ہیں کہ
لاہور!
کتنا سلونا لفظ ہے
لاہوری نمک
جیسے نگینے، گلابی اور سفید
جی چاہتا ہے کہ انہیں تراش کے
چندن ہار میں جڑ دُوں
اور کسی مٹیار کی
ہنس جیسی سفید گردن کے گرد ڈال دوں
آپ ہی آپ جی بھر آتا ہے
ان جانے، غیر مرئی محبوب کی یاد
ہوک بن کے اٹھتی ہے
لاہور کی ہوا میں نور کھِلا ہے
خاموش گھنگھرو بجتے ہیں
اگر آپ اس شہر کے باسی ہیں اور کسی مجبوری کے باعث اس شہر سے دور رہنا پڑ جائے تو یہ لاہور آپ سے دور نہیں ہوتا، یہ آپ کے اندر بستا ہے۔
آزادی کے بعد لاہور سے ہجرت کرنے والے لوگ اب بھی شدت سے لاہور کو یاد کرتے ہیں۔ تارڑ صاحب نے لاہور کے بارے میں لکھا کہ ’اب یہ جو لفظ لاہور ہے۔۔۔ یہ اسم اعظم ہے، یہ ہر در کھول دیتا ہے، آپ دلّی میں ہوں، ٹمبکٹو میں یا برسبین میں، جونہی کسی دیسی شکل کے بندے کو ’لاہور‘ کہتے ہیں تو وہ پگھل جاتا ہے، دشمن دوست ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے، برصغیر کا کوئی بھی شہر اپنے نام میں ایسا سامری پن نہیں رکھتا، میں نے بڑے بڑے متکبّر سرداروں اور متعصّب مذہبیوں کو لاہور کے نام پر موم ہوتے اور آب دیدہ ہوتے دیکھا ہے۔‘

یہ شہر ادب ہے، یہ شہر فن و ہنر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ماضی کا لاہور جو اونچی فصیل اور 13 دروازوں میں مقید تھا کب کا آزاد ہو چکا اور بقول پطرس بخاری ’اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے، اور روز بہ روز واقع تر ہو رہا ہے۔‘
لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میرا شہر بے مثال ہر اس دل میں آباد ہے جو کبھی اس کی فضاؤں میں دھڑکا ہو گا، جس پر کبھی اس شہر کے در و دیوار نے اپنا سحر پھونکا ہو گا۔
سائے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردش وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

شیئر: