Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں 2 ہزار اساتذہ کا بیرون ملک بیٹھ کر تنخواہیں لینے کا انکشاف

وزیر تعلیم کے مطابق بلوچستان میں 65 فیصد سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
صوبہ بلوچستان کے دو ہزار سے زائد اساتذہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک رہ کر ماہانہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔ صوبے میں اس وقت تین ہزار سے زائد ایسے سکول ہیں جو اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال اور ساڑھے پانچ ہزار سے زائد ایسے سکول ہیں جہاں صرف ایک ہی استاد پڑھاتا ہے۔
محکمہ تعلیم کے مطابق بلوچستان میں 58 ہزار سے زائد اساتذہ اور دیگر عملہ محکمہ تعلیم میں تعینات ہے۔ تاہم بلوچستان کے نگراں وزیر تعلیم ڈاکٹر قادر بخش نے انکشاف کیا ہے کہ ان اساتذہ میں ایک بڑی تعداد کام کیے بغیر تنخواہیں لینے والوں کی ہے۔
وزیر تعلیم کے مطابق دو ہزار کے قریب ایسے اساتذہ ہیں جو پاکستان میں موجود ہی نہیں اور تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دو ہزار کے لگ بھگ اساتذہ کئی سالوں سے اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں اور متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں کاروبار یا ملازمت کر رہے ہیں۔ 
نگراں وزیر ڈاکٹر قادر بخش کا کہنا ہے کہ طویل غیر حاضری پر ان اساتذہ کو معطل کر دیا جاتا ہے لیکن تین چار سال بعد وطن واپس آکر خود کو نہ صرف بحال کروا لیتے ہیں بلکہ ملی بھگت سے تین چار سال کی تنخواہ بھی یک مشت وصول کر لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب اکاؤنٹنٹ جنرل آفس، محکمہ خزانہ، ایف آئی اے اور نادرا کے ساتھ مل کر تحقیقات شروع کی جا رہی ہیں۔ سرکاری ملازمین کے کوائف لے کر امیگریشن ڈیٹا سے معلوم کیا جائے گا کہ کون کتنے عرصے سے بیرون ملک میں مقیم ہے۔
’ہماری بد قسمتی ہے کہ یہ اساتذہ نظام کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، بعض دیہی علاقوں میں سکولوں کے سربراہان بھی اس ملی بھگت میں شامل ہوتے ہیں۔‘
صوبائی وزیر نے بتایا کہ بلوچستان کے 16 ہزار سے زائد سرکاری سکولوں میں 81 فیصد پرائمری جبکہ مڈل صرف11 فیصد اور ہائی سکول صرف 8 فیصد ہیں۔

بلوچستان میں دو ہزار کے قریب اساتذہ بیرون ملک رہتے ہوئے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ صوبے میں پہلے ہی 47 فیصد بچے پرائمری سکولوں سے باہر ہیں۔ پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان بچوں کے لیے مڈل سکول کی سہولت موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے 20 سے 25 فیصد طالب علم سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح بلوچستان میں اس وقت 65 فیصد سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے 3359 سکول غیر فعال ہیں۔ 2 ہزار سے زائد سکولوں کی عمارت ہی نہیں ہے، جبکہ 16 ہزار سکولوں میں سے صرف 6516 میں ٹوائلٹ کی سہولت دستیاب ہے۔ اسی طرح بڑی تعداد میں سکول پانی، بجلی، گیس اور چار دیواری سے محروم ہیں۔
صوبائی وزیر نے اعتراف کیا کہ بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سالانہ 4 ہزار کے قریب ٹیچرز اپنی مدت ملازمت یا عمر کی بالائی حد پوری ہونے پر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اساتذہ کی ریٹائرمنٹ، نئے اساتذہ کی بھرتی نہ ہونے اور گھوسٹ اساتذہ کی وجہ سے تین ہزار سے زائد سکول غیر فعال ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی صورتحال کی بہتری، اساتذہ کو ڈیوٹیوں کا پابند بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ علاقے کے ڈپٹی کمشنرز کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں کسی ایک سکول کو مثالی بنائیں تاکہ مقامی با اثر عمائدین اور سیاسی شخصیات اس سے متاثر ہو کر اسی طرح سکولوں کی نگرانی اور سرپرستی شروع کریں۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ تعلیمی ابتری کو محکمہ تعلیم اکیلا ختم نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی اور معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

شیئر: