Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبیا پر حملوں میں شہریوں کی ہلاکتیں، ڈنمارک تحقیقات کرے گا

نیٹو کے آپریشن میں یورپ کے چھ ممالک سمیت دیگر 10 نے حصہ لیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)
ڈنمارک کی وزارت دفاع 2011 میں نیٹو کی قیادت میں لیبیا پر کیے گئے اُن فضائی حملوں کی تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے جس میں ڈنمارک کی فضائیہ نے 14 شہری مار دیے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کی نیٹو مہم میں شامل 10 ممالک میں سے کسی نے شہریوں کے قتل میں ممکنہ ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
2011 میں چھ ماہ تک جاری رہنے والے نیٹو کے ’آپریشن یونیفائیڈ پروٹیکٹر‘ میں یورپ کے چھ ممالک سمیت دیگر 10 ممالک نے حصہ لیا تھا۔
اس آپریشن کے نتیجے میں اگرچہ قذافی حکومت کا خاتمہ ہوا تاہم لیبیا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والا عدم استحکام پیدا ہوا۔
ڈنمارک کی فضائی بمباری دو واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنی جن میں سے ایک میں طرابلس کے مغرب میں سورمن پر ایک فضائی حملے میں جون 2011 میں 12 شہری مارے گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں پانچ بچے اور ایک خاندان کے چھ افراد شامل تھے۔
اسی سال ستمبر میں سرت میں ایک اپارٹمنٹ بلاک پر ڈنمارک کے حملے میں دو شہری (مرد اور حاملہ خاتون) مارے گئے۔
دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈنمارک 2012 کے اوائل سے ہی سمجھ گیا تھا کہ اس کی فوج شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہو سکتی ہے تاہم کُھلے عام اعتراف کرنے سے بچنے کے فیصلے کی وجہ سے مقتول شہریوں کے لواحقین قانونی ازالے کے لیے رجوع نہ کر سکے۔
خالد الحمیدی، جن کی اہلیہ اور بچے جون 2011 میں سورمن پر حملے میں مارے گئے تھے، نے نیٹو کے خلاف قانونی دعویٰ لانے کی کوشش کی لیکن بیلجیئم کی عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔
عدالت نے 2017 میں فیصلہ دیا کہ اتحاد کو استغاثہ سے استثنیٰ حاصل ہے۔
الحمدی کے والد سورمن کمپاؤنڈ کے مالک تھے جسے اس حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیبیا کے شہری نے نیٹو کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ عمارت ایک کمانڈ اور کنٹرول کے طور پر کام کر رہی تھی اور اسے رہائشی قرار دیا تھا۔
الحمیدی نے کہا کہ وہ ڈنمارک کے خلاف دعویٰ لانے پر غور کریں گے۔ ’میں چاہتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے اپنی غلطی کا اعتراف کریں، معافی بھی مانگیں۔‘
2012 کی ایک نئی جاری کردہ دستاویز، جس میں ڈنمارک کا اقوام متحدہ کے کمیشن کی ان حملوں کی تحقیقات پر ردعمل ،کی تفصیل شاملہے، میں کہا گیا ہے کہ ’شہری ہلاکتوں کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔‘

شیئر: