Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کا صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان

احمدی نژاد حکومتی پروگراموں کی وجہ سے غریب عوام میں مقبول رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے 28 جون کو ملک میں ہونے والے صدارتی انتخابات  میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق گذشتہ ماہ ایران میں ہیلی کاپٹر حادثے کے باعث صدر ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد ملک میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
سابق صدر احمدی نژاد کی انتخابات میں رجسٹریشن ایران کے سپریم لیڈر 85 سالہ آیت اللہ علی خامنہ ای پر دباؤ بڑھائے گی۔
محمود احمدی نژاد کی 2021  کے انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کو روک دیا گیا تھا۔
ہولوکاسٹ سے متعلق سوال کرنے والے سیاست دان کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب تہران کے جوہری پروگرام، یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کو مسلح کرنے اور اختلاف رائے پر وسیع پیمانے کے کریک ڈاؤن سے ایران اور مغربی ممالک  کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
تہران میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے صحافیوں نے محمود احمدی نژاد کو رجسٹریشن کے لیے  وزارت داخلہ کے دفتر جاتے ہوئے دیکھا ہے، جہاں ان کی آمد سے قبل حامیوں نے ایرانی پرچم لہراتے ہوئے نعرے لگائے۔

محمود احمدی نژاد 2005 سے 2013 تک ایران کے سربراہ رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

وزارت داخلہ کے دفتر کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے محمود نژاد درجنوں فوٹوگرافرز اور ویڈیو جرنلسٹس کو اپنا پاسپورٹ دکھا رہا تھے جو انہوں نے رجسٹریشن کے عمل کے لیے ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے حامی صدر ابراہیم رئیسی جو مئی میں سات دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ان کی جگہ لینے کے لیے 28 جون کو ملک میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔
قبل ازیں محمود احمدی نژاد چار سالہ صدارتی مدت کے لیے دو بار 2005 سے 2013 تک ایران کے سربراہ رہے ہیں۔

گذشتہ انتخابات میں احمدی نژاد کو حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ فوٹو اے پی

ایرانی قانون کے تحت وہ چار سال  اس عہدے سے باہر رہنے کے بعد دوبارہ انتخاب لڑنے کے اہل ہو گئے ہیں۔
محمود احمدی نژاد عوام کو گھر بنا کر دینے کے حکومتی پروگراموں کی وجہ سے غریبوں میں کافی مقبول رہے ہیں۔
محمود احمدی نژاد حکومتی بدعنوانی پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں حالانکہ ان کی اپنی انتظامیہ کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور اس تناظر میں ان کے دو سابق نائب صدور کو جیل بھی جانا پڑا۔

شیئر: