پاکستان سولر پینلز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ظفر اقبال کے مطابق ’وزیر خزانہ کی تقریر میں سولر پینلز پر ٹیکسوں سے متعلق ابہام پایا جاتا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وفاقی بجٹ برائے سال 25-2024 پیش کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سولر پینل انڈسٹری کے فروغ کے لیے آلات کی درآمد پر ٹیکس میں رعایت دی جائے گی۔
ان آلات میں پلانٹ مشینری اور منسلک آلات، سولر پینل، انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری کا خام مال شامل ہیں۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ سولر پینل برآمد کرنے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے پلانٹ مشینری اور اس کے ساتھ منسلک آلات اور سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعاتیں دی جا رہی ہیں۔ تاکہ درآمد شدہ سولر پینلز پر انحصار کم کیا جا سکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔
اس سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت نے سولر پینلز کے حوالے سے گذشتہ کئی ماہ سے چلنے والی خبروں کے برعکس اس شعبے کو ریلیف دیا ہے لیکن اس حوالے سے ماہرین اور پاکستان سولر پینلز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سولر پینلز اور اس سے متعلقہ آلات اور مشینری پر پہلے ہی کوئی کسٹم ڈیوٹی عائد نہیں ہے اس لیے حکومت کی طرف سے اس اعلان سے بظاہر سولر انڈسٹری کو کوئی نیا فائدہ نہیں مل رہا۔
اس کے برعکس اپنی بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے سے متعلق اعلان کیا ہے جس سے سولر کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’حکومت پاکستان ٹیکس قوانین میں مساوات اور انصاف کے اصولوں پر کاربند ہے۔ اس بات پر بار بار زور دیا گیا ہے کہ ٹیکس قوانین میں متعدد رعایتیں دی گئی ہیں جو نہ صرف حکومت کی آمدنی کم کرتی ہیں بلکہ سماجی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ لہذا ہم نے بہت سی اشیا کا جائزہ لیا جن پر دی گئی رعایتیں ختم کرنے کی تجویز ہے۔ جن میں سے کچھ کو کم شرح جبکہ باقیوں پر سٹینڈرڈ سیلز ٹیکس عائد ہو گا۔‘
اس حوالے سے سابق سیکریٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ حکومت نے ایک طرف سولر انڈسٹری پر متعلقہ خام مال اور پرزہ جات پر کسٹم ڈیوٹی زیرو کی ہے تو دوسری جانب سیلز ٹیکس میں موجود رعایتیں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے صنعت کار کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے البتہ صارفین کی جیب پر اس کا بوجھ پڑنے کا امکان ہے۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ فنانس بل میں سولر پینلز پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے یا نہیں۔
دوسری جانب پاکستان سولر پینلز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ظفر اقبال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر خزانہ کی تقریر میں سولر پینلز پر ٹیکسوں سے متعلق ابہام پایا جاتا ہے۔ وہ ایک طرف سولر پینلز سے متعلق خام مال اور پرزہ جات پر چھوٹ کی بات کرتے ہیں جن پر پہلے ہی کوئی ٹیکس نہیں ہے تو دوسری طرف سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہمیں ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کہنا کیا چاہ رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ سولر پینلز پر فی الحال کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پوری دنیا اور پاکستان بھی گرین انرجی کی طرف جا رہا ہے۔ یہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بجلی کی کھپت کم کرنے اور بجلی کی بلوں میں کمی لانے کے لیے سولر پینلز لگوا رہے ہیں تو حکومت کو ان کو سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ متبادل توانائی کے ذرائع سے عوام مستفید ہوں۔
پاکستان سولر پینلز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری کے مطابق ’بجلی کا ٹیرف آئے روز اوپر جا رہا ہے، ایسے میں اگر سولر پر ٹیکس ہو گا تو لوگوں کو ریلیف بھی نہیں ملے گا، اور بجلی پید اکرنے کے لیے حکومت کو بھاری سرمایہ کاری بھی کرنا پڑے گی یا پھر نجی پلانٹس سے مہنگی بجلی خریدنا پڑے گی۔‘
ظفر اقبال کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومت اس شعبے پر ٹیکس لگانا ہی چاہتی ہے تو وہ کم از کم اور ایک ہی شرح پر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس میں فائلر اور نان فائلر وغیرہ کی تفریق پیدا کر دے، اس کا نقصان بالآخر مینوفیکچرر یا ڈیلر کو اٹھانا پڑتا ہے۔‘