Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سستا سیاحتی پیکج اور ناقص سہولیات، پاکستان میں’غیر قانونی‘ ٹور آپریٹرز کی بھرمار

پہاڑی علاقوں کی سیر کے لیے زیادہ تر سیاح ٹور آپریٹرز کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں ان دنوں گرمی زوروں پر ہے اور زیادہ سے زیادہ سیاح ملک کے شمالی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے سیاح دو طریقوں سے سیر کے لیے نکلتے ہیں، یا تو وہ اپنی ذاتی سواری پر دوستوں اور خاندان کے ہمراہ سفر کرتے ہیں یا پھر مختلف ٹور سروسز کا سہارا لیتے ہیں۔
اگر آپ سوشل میڈیا صارف ہیں اور غلطی سے گوگل یا فیس بک سرچ میں سیاحت سے متعلق کوئی معلومات حاصل کی ہیں تو یقیناً آپ کی ٹائم لائن پر ایسی کمپنیوں کے اشتہار لاتعداد انداز میں نظر آرہے ہوں گے جو لوگوں کو سیاحت کرواتے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے ٹور آپرٹیرز کی بھرمار نے عام لوگوں کا فیصلہ کرنا مشکل بنا دیا ہے کہ کس کمپنی کے ساتھ سفر کیا جائے۔
لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضرور پرکھ لیں کہ یہ کمپنی جائز کاروبار کر رہی ہے یا نہیں۔
محمد فاروق کا تعلق لاہور سے ہے اور انہوں نے گزشتہ موسم گرما میں ایزی ٹریولز نامی ایک کمپنی کے ساتھ سے لاہور سے ناران کا سفر کیا تھا۔ انہوں نے انسٹاگرام پر ایک ٹور کمپنی کا اشتہار دیکھا تھا اور اسی کلے ساتھ ٹرپ بک کرا لیا۔
’کمپنی کا نام اور اس کے ریٹ بھی معقول تھے تو میں نے ان کے ساتھ بکنگ کا فیصلہ کر لیا۔ طے شدہ وقت پر ہمیں ایک بس اڈے کے باہر اکھٹے ہونا تھا۔ جہاں ایک کوسٹر کھڑی تھی۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’کوسٹر تھوڑی پرانی تھی لیکن ہم اس میں بیٹھ گئے، اس پیکج میں کھانا پینا اور رہائش بھی شامل تھی۔ اور اس کے بعد پھر جو تجربہ ہوا کیسا کھانا دیا گیا اور کس طرح کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا تو میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آئندہ ایسے سفر نہیں کرنا۔ اور یہ صرف میرا نہیں باقی ساتھی سیاحوں کا بھی یہی خیال تھا۔‘
جس ’ٹور آپریٹر‘ کے ساتھ فاروق نے سفر کیا اب ان کا انسٹا پیج دستیاب نہیں ہے۔ تاہم اسی نوعیت کے مختلف سستے پیکجز کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں آپ کو کمپنیاں نظر آئیں گی جو شمالی علاقوں کی سیاحت کرنے کے لیے آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔

غیر قانی ٹور آپریٹرز کے ساتھ سفر کرنا غیرمحفوظ سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

غیر شفاف لیکن آسان کاروبار
یہ ’سوشل میڈیا کمپنیاں‘ کیسے کام کر رہی ہیں اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو نیوز نے کئی کمپنیوں کی جانب سے دیے گئے اشتہاری نمبروں پر رابطہ کیا تو وہ اس موضوع پر سرے سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
کئی ایک نے تو تحریری سوالات منگوائے اور اس کے بعد جواب نہیں دیا۔ جو پہلا سوال ان کے سامنے رکھا گیا وہ یہی تھی کہ کیا وہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں؟ اور بڑی تعداد میں لوگ کیا اس لیے اس کاروبار میں آ رہے ہیں کہ یہ ایک آسان ذریعہ معاش ہے؟
اسی کاروبار سے کئی سالوں سے منسلک ایک شخصیت نے اردو نیوز کو اپنے تجربے کی بنیاد پر کچھ معلومات دیں۔
انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گرمیوں کے موسم میں بڑی تعداد میں ٹور آپریٹرز اپنے فیس بک اور انسٹا پیجز کے ساتھ اس لیے نمودار ہوتے ہیں کیونکہ وہ کاروبار ہی تین مہینوں کے لیے کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پانچ روز کے ٹور پلان سے ستر ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے کی آمدن ہو جاتی ہے۔ مہینے میں دو سے تین ٹور آرام سے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے لوگ کاروبار کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر مہینے ہر بار آپ کو بارہ پندرہ لوگوں کا ٹور مل جائے۔ جتنے بھی سوشل میڈیا پیجز چل رہے ہیں ان کے پیچھے اکثر لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ پچھلے سال ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ بارہ ٹور آپریٹرز کے پاس ایک ایک یا دو دو افراد کی بکنگ ہوئی۔ تو انہوں نے سیاحوں کو بغیر بتائے ایک ٹور آپریٹر کو کچھ پیسوں کے عوظ اپنی بکنگ دے دی۔ بعد میں جب سہولتوں کے حوالے سے بات کھلی تو اچھا خاصہ ہنگامہ ہوا۔ لیکن ان میں کوئی بھی ٹور آپریٹر سرکاری طور پر رجسٹرڈ نہیں تھا۔‘
پاکستان میں سرکاری طور پر ڈیپارٹمنٹ آف ٹور سروسز ایک ایسا ادارہ ہے جو ملک کے اندر اور بین الاقوامی طور پر کام کرنے والے ٹور آپریٹرز کو رجسٹرڈ کرتا ہے۔ اور اسی ادارے کے پاس اتھارٹی ہے کہ وہ تمام ٹور آپریٹرز کو ریگیولیٹ کر سکتا ہے۔
ڈیسٹینیشن پاکستان نامی ایک ٹور آپریٹر کمپنی جو 2016 سے ڈی ٹی ایس سے رجسٹرڈ ہے۔ کمپنی کے کو فاؤنڈر ثاقب علی بتاتے ہیں کہ ’غیر قانونی ٹور آپریٹرز کی بھرمار سے ہمارا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔ اس لیے اب ہم صرف بیرون ملک سے آئے سیاحوں کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس دستاویزات مکمل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ویزہ کے لیے دعوت نامہ جاری کرنے سے لے کر ہر چیز ہمارے پاس ہے۔‘

اکثر غیر رجسٹرڈ ٹور آپریٹرز صرف تین ماہ کے لیے آپریشنل ہوتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ان سے جب پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں غیر قانونی ٹور آپریٹرز کی بھرمار کیوں ہے تو ثاقب علی نے جواب دیا ہے کہ ’ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو صرف گائیڈ ہیں۔ اور ہماری جیسی رجسٹرڈ کمپنیوں نے ایسے گائیڈ رکھے ہوتے ہیں تو ہم سیاحوں کو ان کے ساتھ بھیجتے ہیں۔ تو وہ اس دوران سیاحوں کو اگلی بار کے لیے سستے پیکج آفر کر دیتے ہیں، لوکل سیاحوں کا ہمارے ساتھ دوبارہ سفر کرنے کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ غیر ملکی بار بار آتے ہیں۔‘
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے چھ سو کے قریب غیر قانونی ٹور آپریٹرز کام کر  رہے ہیں۔
غیر قانونی ٹور آپریٹرز غیر محفوظ
پنجاب میں ٹور آپریٹرز کو ریگیولیٹ کرنے والے ادارے ڈیپارٹمنٹ آف ٹور سروسز کے ڈپٹی کنٹرولر غضنفر علی کہتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ ٹور آپریٹرز کے ساتھ سیاحت کرنا غیر محفوظ ہے۔
’ان کے نہ تو کوئی دفاتر ہیں اور نہ ان سے کسی بھی قسم کی جواب دہی کی جا سکتی ہے۔ یہ لوگ بس آن لائن کام کرتے ہیں اور ایسے واقعات میں ایک تسلسل ہے جس میں لوگوں کو شکایات کا سامنا رہا ہے۔‘
سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے اندر سیاحت کے لیے رجسٹرڈ ٹور آپریٹرز کی تعداد 200 کے قریب ہے۔
جب غضنفر علی سے پوچھا گیا کہ رجسٹرریشن کا عمل کتنا پیچیدہ ہے؟ اور غیر قانونی ٹور آپریٹرز کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’بہت معمولی سی سالانہ فیس ہے جو کہ 35 ہزار روپے ہیں۔ جہاں تک کاروائی کا تعلق ہے تو ڈی ٹی ایس کا ادارہ بنیادی طور پر ایک وفاقی ادارہ تھا اور اٹھارویں ترمیم کے بعد اسے صوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔‘
’صوبے کو منتقلی کے بعد ابھی تک صوبے نے اپنا قانون نہیں بنایا ہے اور ہم وفاقی قانون کو استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نوٹس کرتے ہیں اور جواب نہ دینے پر ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی بھی کرتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کے اشتہاروں پر نہ جائیں اور صرف رجسٹرڈ ٹور آپریٹرز پر بھروسہ کریں۔‘
اہم بات یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والی یہ ٹورز کمپنیاں قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

شیئر: