ملک کی پہلی ’قومی امیگریشن اینڈ ویلفیئر پالیسی‘ کیا ہے؟
ملک کی پہلی ’قومی امیگریشن اینڈ ویلفیئر پالیسی‘ کیا ہے؟
منگل 30 جولائی 2024 16:13
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں امیگریشن پالیسی کا پہلا مسودہ تیار ہوا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
16 سال پہلے شروع کی گئی ملک کی پہلی قومی امیگریشن اینڈ ویلفیئر پالیسی مزید تبدیلی اور ترامیم کے ساتھ تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچ گئی ہے جسے اگلے ماہ وزیراعظم کی سربراہی میں امیگریشن کے حوالے سے قائم کی گئی کابینہ کمیٹی میں پیش کیا جائے گا۔ جہاں اس کو حتمی شکل دینے کے بعد منظوری کے لیے کابینہ میں بھجوایا جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس پالیسی کا پہلا مسودہ تیار ہوا تھا۔ وہ مسودہ بھی تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی تجاویز شامل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے دور میں بھی اس مسودے پر کام ہوتا رہا تاہم اسے حتمی شکل نہ دی جا سکی۔
سنہ 2020 میں عمران خان حکومت کے دوران ایک مرتبہ پھر اس پالیسی پر کام شروع ہوا اور ستمبر 2020 میں اس پالیسی کا دوسرا مسودہ تیار ہوا۔ یہ مسودہ دس صفحات پر مشتمل تھا لیکن اسے کابینہ میں پیش نہ کیا جا سکا۔
پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں اس پالیسی پر نئے سرے سے کام شروع ہوا اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے بعد دس صفحات کی پالیسی اب 100 صفحات سے تجاوز کر چکی ہے لیکن ابھی تک اس کی حتمی منظوری کا مرحلہ نہیں آیا۔
اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں انٹرنیشنل لیبر مارکیٹ میں بہت سے نئے رجحانات متعارف ہوئے ہیں۔
’پاکستانی ورکرز کے میزبان ممالک میں کئی قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس وجہ سے پہلا مسودہ اب اس لحاظ سے کارآمد نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے اس پر نئے سرے سے کام کیا گیا۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کے بعد بیرون ملک ملازمت کے مواقع پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوئے اور پھر ان میں رفتہ رفتہ تیزی آتی گئی۔ اس تناظر میں پالیسی میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں جنھیں ورکرز کا مستقبل اور جاب سیکیورٹی کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانیز ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے چارج سنبھالا تو مجھے بتایا گیا کہ امیگریشن پالیسی تیار ہے لیکن جب اس کا جائزہ لیا گیا تو اس میں کافی کام کی ضرورت تھی۔ اب جا کر اس پر اسی نوے فیصد کام مکمل ہوا ہے اور یہ سو صفحات سے اوپر جا چکی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں امیگریشن کے معاملات کو زیادہ سنیجیدگی سے لیا جا رہا ہے اس کی وجہ ہے کہ بیرون ملک سے ایک تو مہارت یافتہ ورکرز کی ڈیمانڈ آ رہی ہے تو ان کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بہت زیادہ مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ جب بھی کوئی پاکستانی بیرون ملک جائے تو وہ ملک کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ماضی قریب میں سعودی عرب سے 92 نرسیں صرف اس وجہ سے واپس بھجوا دی گئیں کہ اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر کا ان سے جھگڑا ہو گیا تھا اور اس نے تمام نرسوں کے آن لائن کاغذ اپ لوڈ کرنے کے بجائے ایک ہی کاغذ سب کے پورٹل پر اپ لوڈ کر دیا۔ یہ جعل سازی ایک سال بعد پکڑی گئی اور وزیراعظم کی سطح پر اس کا نوٹس لیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی ورکرز بیرون ملک جا کر اپنا کام بہتر انداز میں سرانجام نہیں دیتے جس کی وجہ سے مشکلات آ رہی ہیں۔ 2011 کے بعد کویت نے بڑی مشکل سے میڈیکل کے شعبے میں پاکستانی ہیلتھ ورکرز کو لینا شروع کیا لیکن پاکستانی نرسز وہاں چھ مہینے کام کرنے کے بعد برطانیہ اور دوسرے ممالک جانے کی ضد کرنا شروع کر دیتی ہیں اور اس سے بھی بڑی بدنامی یہ ہے کہ وہ جدید میڈیکل آلات سے ناواقف ہوتی ہیں۔ ان کی نہ صرف پیشہ وارانہ بلکہ اخلاقی اور سماجی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔‘
سیکریٹری اوورسیز نے بتایا کہ ’کچھ پاکستانی جو امارات میں مقیم ہیں اور سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک پر متحرک ہیں ان کے بارے میں شکایات آئی ہیں کہ وہ مقامی روایات، شعائر اور قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مقامی خواتین کی ویڈیوز بنا کر ان کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اسی طرح امارات میں جرائم میں گرفتار افراد کا 50 فیصد کا تعلق پاکستانی کمیونٹی سے جس وجہ سے وہاں سے ورک ویزے ملنے میں کمی آ گئی ہے۔ ورکرز کو اپنے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان سات کروڑ لیبر فورس کا ملک ہے۔ دنیا میں پانچویں نمبر پر سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر پاکستانی بھیج رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں جاپان نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی الیکٹریکل انجنیئرز کی پوری کلاس بک کر لی ہے۔ اب ان بچوں کی مرضی ہے کہ وہ جاپان جانا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘
سیکریٹری اوورسیز نے کہا کہ ’ہم نے پالیسی میں انڈیا اور بنگلا دیش کے ساتھ پروٹیکٹوریٹ، تربیت، ہنرمندی سے لے کر تمام امور پر تقابل کیا ہے تاکہ مستقل میں ان تمام اہداف کو حاصل کیا جائے جو بھی طے کیے جائیں اور کسی شعبے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ ان تمام مسائل اور بیرون ملک ضروریات کو سامنے رکھ کر پالیسی تیار کی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کا پہلا اجلاس اگلے ماہ ہوگا جس میں وزیر خارجہ، وزیر اوورسیز، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ سمیت اعلی حکام شامل ہیں۔ اس کمیٹی کے کچھ کام میں ایس آئی ایف سی بھی معاونت کرے گی۔ پالیسی کا مسودہ بھی کابینہ سے پہلے اس اجلاس میں پیش کیا جائے گا تاکہ اس میں موجود کمیاں دور کی جا سکیں۔‘
پالیسی کیا ہے؟
پالیسی کے مسودے میں پالیسی بنانے کی وجوہات، مقاصد اور چیلنجز شامل ہیں۔ پالیسی کے تحت امیگریشن قوانین میں تبدیلی سمیت اداروں میں بہتری کے اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
پالیسی میں بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کو درپیش اہم چیلنجز کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ جس کے تحت پاکستانی ورکرز کی مشرق وسطیٰ میں ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی کے تسلسل کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں نئے مواقع کی تلاش جاری رکھنا ہے۔ بیرون ملک ورکرز کے حوالے سے دو طرفہ یادداشتوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث دو طرفہ معاہدوں کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ریکروٹمنٹ کے عمل میں ہونے والی زیادتیاں اور ورکرز کے حقوق کے راستے میں آجروں کے حوالے سے میزبان ملکوں کے ساتھ بات چیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ بیرون ملک ورکرز کے ساتھ ملازمت کے معاہدے سے انحراف، تنخواہوں میں کمی اور کام میں تبدیلی جیسے مسائل بھی سامنے ہیں۔
پاکستانی ورکرز کے بچوں کو سکولوں میں داخلے، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تجدید میں درپیش مشکلات اور سفارتی خدمات کی غیر مناسب فراہمی کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی ورکرز کو حوالہ ہنڈی سے بچانے کے لیے کسی قسم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ مسائل جنم لیتے ہیں اور ترسیلات زر بھی متاثر ہوتے ہیں۔
بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانیوں کی تعداد یا ان کے بارے میں ڈیٹا کی دستیابی نہ ہونے کے باعث بوقت ضرورت ان کی معاونت کرنے اور ان کی ضروریات کا اندازہ لگانے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے باعث پاکستانی ورکرز عموماً نہ صرف بیرون ملک بلکہ وطن واپس آنے کے بعد بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
پالیسی میں مقاصد اور درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ جس کے مطابق 1979 کے امیگریشن آرڈینینس اور دیگر متعلقہ قوانین میں ترامیم کے ذریعے ورکرز کی ٹریننگ، ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی استعداد کار میں اضافہ اور کمیونٹی ویلفئیر اتاشیوں کے کردار میں بہتری تجویز کی گئی ہے۔
پالیسی میں انسانی سمگلنگ روکنے، بہترین ریکروٹمنٹ کے لیے مراعات، ورکرز کو بیرون ملک بھجوانے کے اخراجات میں کمی اور ورکرز کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بیرون ملک ورکرز کی مانگ کو سامنے رکھتے ہوئے پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دینے، بیرون ملک ورکرز کے تحفظ اور سستی، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے ترسیلات زر بھجوانے کا نظام متعارف کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔
مقاصد کے حصول، چیلنجز کے حل اور مسائل کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کو قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی اہداف کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ان اہداف میں قانون سازی، جدید میکنزم، تربیت، معاہدے اور اصلاحات شامل ہیں۔