Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیس صارفین کو ’کروڑوں کا فائدہ‘ پہنچانے والے وکیل

کوئٹہ کے رہائشی حارث رسول کا گیس کا بل ماہانہ اوسطاً 40 سے 50 ہزار روپے آرہا تھا لیکن اگست کے مہینے میں انہیں بل دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ انہیں اس بار نہ صرف بل جمع نہیں کرانا پڑے گا بلکہ الٹا گیس کمپنی دو لاکھ روپے سے زائد کی ان کی قرض دار ہو گئی ہے۔
حارث کی طرح بلوچستان کے بیشتر صارفین کو رواں ماہ گیس کے بلوں میں بڑا ریلیف ملا ہے۔ یہ سب کوئٹہ کے ایک ایڈووکیٹ نذیر احمد آغا کی بدولت ممکن ہوا ہے جن کی کاوشوں سے بلوچستان کے لاکھوں گیس صارفین کو بھاری بلوں سے چھٹکارا ملا ہے۔
نذیر احمد آغا نے بلوچستان کے تین لاکھ سے زائد گیس صارفین کا مقدمہ مفت لڑا۔ مسلسل تین سالوں کی قانونی جنگ کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو گھریلو صارفین کے لیے گیس کے بلوں میں واضح کمی کا پابند اور تحفظ یافتہ صارفین کے لیے گیس کے استعمال کی حد میں اضافہ کر دیا ہے۔
نذیر احمد آغا نے اردو نیوز کو بتایا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں موسم سرما میں سخت سردی پڑتی ہے، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے ایسے میں لوگ گیس کا استعمال اپنی جان بچانے کے لیے کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے گیس کے استعمال کے لیے بلوچستان کے صارفین کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی تھی۔ ایک ہیٹر اور ایک چولہا جلانے والے چھوٹے گھرانوں کو بھی ایک ایک دو دو لاکھ روپے کے گیس بل آئے۔ لوگ بل ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچنے پر مجبور ہو گئے۔
نذیر احمد آغا کے مطابق جس طرح گرمیوں میں بجلی پنجاب اور سندھ کے لوگوں کی ضرورت ہے اسی طرح سردیوں میں بلوچستان میں گیس لوگوں کی مجبوری ہے۔
’حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے صارفین کو باقی صوبوں کی گیس فروخت بیچی جا رہی ہے۔ کراچی میں ایک صارف کو 62 ایم ایم بی ٹی یو گیس استعمال کرنے پر 1273 روپے جبکہ کوئٹہ کے ایک صارف کو 56 ایم ایم بی ٹو یو گیس کے استعمال پر 27646 روپے دوسرے کو 303 ایم ایم بی ٹی یو پر 42 ہزار 253 روپے بل بھیجے گئے۔‘

مزدوروں کے گیس کے بل لاکھوں روپے کے آئے تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اپنی ماہانہ ہی نہیں سالانہ آمدن سے کئی گنا زیادہ گیس کے بل دیکھ کر روئے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر میں نے عدالت میں میں سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے اوور بلنگ، سلو میٹر چارجز اور دیگر پوشیدہ چارجز کے خلاف 2021 میں درخواست دائر کی۔‘
نذیر احمد آغا کا کہنا تھا کہ تین سالوں تک انہوں نے اس کیس کو مسلسل لڑا۔ اس دوران بیوہ خواتین، ریڑھی اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے، سرکاری ملازمین سمیت سینکڑوں صارفین ان کے پاس درخواستیں لے کر آئے وہ سب کا کیس مفت لڑتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ درجنوں بار عدالت میں پیش ہوئے، کئی بار سماعت تین چار گھنٹے طویل چلی جس کی وجہ سے باقی کیسز بھی متاثر ہوئے تاہم ہمت نہیں ہاری۔
’تین سال تک مسلسل اس کیس کو لڑا اور اس کے نتیجے میں عدالت نے نہ صرف شہر میں گیس کی کمی، لوڈ شیڈنگ بلکہ گیس کے بلوں میں اضافی چارجز کو ختم کر دیا۔ جون میں بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کامران ملاخیل اور جسٹس اقبال احمد کاسی پر مشتمل بینچ نے تاریخی فیصلہ دیا۔‘
بلوچستان ہائیکورٹ نے اس مسئلے پر آٹھ رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ عدالت نے اس کمیشن کی سفارشات پر حکم دیا کہ بلوچستان میں گرمیوں میں 200 کیوبک میٹر اور سردیوں میں 590 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنےوالے صارفین کو پروٹیکڈ (تحفظ یافتہ) قرار دیا جائے۔ پہلے صرف 90 میٹر کیوبک گیس استعمال کرنے والے پرٹیکٹڈ سمجھے جاتے تھے۔
عدالت نے حکم دیا کہ اپریل سے اکتوبر تک گرمیوں کے سات ماہ کے دوران 200 یونٹ گیس استعمال کرنے والے صارفین کو 2551 روپے ماہانہ جبکہ نومبر سے مارچ تک سردیوں کے پانچ ماہ میں 590 یونٹ تک گیس استعمال کرنےوالے صارفین کو زیادہ سے زیادہ 8848 روپے ماہانہ بل بھیجا جائے۔ اس طرح اب سال میں پروٹیکٹڈ صارفین کو سال میں 62 ہزار97 روپے سے زائد بل نہیں آئے گا۔ اس سے کم استعمال کی صورت میں بل اصل کھپت کے مطابق لیا جائے گا۔

ایڈووکیٹ نذیر احمد آغا کے مطابق وکالت کا پیشہ خدمت کے جذبے سے اپنایا تھا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

عدالت نے متنازع بقایاجات میں بھی صارفین کو بڑا ریلیف فراہم کیا ہے۔ عدالت نے اُن صارفین جن سے نومبر 2023 سے زائد چارجز وصول کیے گئے تھے، کے اضافی رقم کو بھی ان کے مستقبل کے بلوں میں ایڈجسٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس عدالتی حکم کے بعد ہزاروں صارفین جنہیں پہلے ماہانہ لاکھوں روپے کے بل وصول ہوئے تھے اس بار منفی میں بل موصول ہوئے ہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں گیس چوری کی وجہ سے بلوچستان کے سرد علاقوں کے صارفین کے لیے گیس ٹیرف کو غیر حقیقی کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سردیوں میں موسم کی سختی کی وجہ سے گھریلو صارفین کی جانب سے گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے، گیس ٹیرف کے سیلب کی وجہ سے حد سے زیادہ بل آجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے صارفین گیس چوری، میٹر ٹیمپرنگ اور دوسرے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کمپنی کو سالانہ 24 ارب روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔‘
کمیشن نے انکشاف کیا تھا کہ بلوچستان کے علاوہ باقی تمام صوبوں میں 70 فیصد گھریلو صارفین تحفظ یافتہ ہیں اور وہ سالانہ 150 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کرتے ہیں۔ کمیشن نے تجویز دی تھی کہ ملک بھر میں تمام گھریلو صارفین کو سبسڈی کا مساوی فائدہ پہنچایا جائے اس لیے بلوچستان کے سرد علاقوں جہاں سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے وہاں خصوصی اور قابل ادائیگی ٹیرف متعارف کرانا چاہیے۔
کمیشن نے بلوچستان کو 11 سے 12 ارب روپے کی اضافی سبسڈی دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اس صورت میں گیس چوری میں کمی اور ریکوری میں اضافہ ہو گا۔
بلوچستان میں سوئی سدرن گیس کمپنی بلوچستان کے سابق ریجنل مینجر مدنی صدیقی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تائید کی کہ صوبے میں سردیوں میں گیس کا استعمال زیادہ ہے جس کی وجہ سے صارفین کے بل زیادہ آجاتے ہیں۔
’ادائیگی کی سکت نہ رکنے کی وجہ سے صارفین گیس چوری کرتے ہیں وہ میٹر کو مختلف طریقوں سے ٹیمپر کرتے ہیں جس سے کمپنی کو سالانہ 55 سے 60 فیصد نقصانات ہوتے ہیں۔‘
نذیر احمد آغا کے مطابق عدالتی فیصلے کی وجہ سے بلوچستان کے عوام کے کم از کم 16 ارب روپے کے بقایاجات معاف ہوئے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر گیس صارفین کو منصفانہ بل بجھوائے جائے تو اس سے نہ صرف گیس کی چوری میں کمی ہو گی بلکہ گیس کمپنی کو فائدہ بھی ہو گا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ بلوچستان کے ہزاروں صارفین کے بل منفی میں آنے کے پیچھے بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان نے اس کیس سے متعلق مزید تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

بلوچستان ہائیکورٹ میں گیس سے متعلق کیس کی ہر سماعت کے موقع پر درجنوں صارفین نذیر احمد آغا کے گرد ہجوم کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ انہی میں ایک کوئٹہ کے رہائشی عبدالصمد بھی تھے جو مزدور ہیں اور روزانہ اجرت پر کام کرکے اپنا گزربسر کرتے ہیں۔
اردونیوز سے بات کرتے ہوئے عبدالصمد نے بتایا کہ ’چند ماہ پہلے 13 لاکھ 69 ہزار روپے کا گیس کا بل موصول ہوا تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے آٹھ لاکھ روپے میں یہ مکان خریدا مگر بل اس کی مالیت سے بھی زیادہ آیا ہے حالانکہ گھر میں گیس کا اتنا بھی پریشر نہیں آتا کہ چولہا جل سکے۔ یہ غریب صارفین کے ساتھ نا انصافی ہے۔‘
عبدالصمد نے کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ کوئٹہ کا ایک وکیل گیس صارفین کا کیس مفت لڑتا ہے اس لیے وہ نذیر آحمد آغا کے پاس درخواست جمع کرانے آئے ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے اختر آباد کے رہائشی مسجد کے پیش امام مولوی عصمت اللہ شازلی نے بتایا کہ ’میرے گھر کا 11 لاکھ 86 ہزار روپے بل آیا۔ عدالت نے صرف دس فیصد بل جمع کرانے کا کہا تھا۔ اب وکیل صاحب بتا رہے ہیں کہ مزید بھی ریلیف ملے گا۔‘
نذیر آغا کے مطابق عدالت نے کمپنی کو نومبر 2023 سے جون 2024 تک کے بھاری بقایا جات کو ختم کر کے ان آٹھ مہینوں کے لیے صارفین سے مجموعی طور پر صرف 26 ہزار روپے بل وصول کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالتی فیصلے سے ریلیف حاصل کرنے والے گیس صارف حارث رسول نے بتایا کہ ’کوئٹہ کی سردیاں شدید ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دسمبر سے لے کر اپریل تک سوئی گیس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ اس ہی وجہ سے بلز بھی زیادہ آتے ہیں۔ گیس کے بھاری بلوں کے خوف کی وجہ سے گھر میں دو گیس کے میٹرز بھی لگوائے لیکن اس کے باوجود بھی اضافی ٹیکسز اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ گزشتہ سالوں کی نسبت اس بار بلز زیادہ آئے جو میرے لیے جمع کرانا مشکل ہو گئے۔‘

غریب لوگ اضافی بِل کے معاملے پر ایڈووکیٹ نذیر احمد آغا سے رابطہ کرتے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گیس کٹ جانے کے ڈر کی وجہ سے دوستوں سے ادھار لے کر مجبوراً بل جمع کرائے مگر نذیر احمد آغا کی انتھک کوششوں سے گزشتہ ماہ ایک میٹر کا بل ایک لاکھ 31 ہزار روپے منفی میں آیا جبکہ دوسرے میٹر کا بل 90 ہزار روپے منفی میں آیا۔
نذیر احمد آغا نے بتایا کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے سڑکوں کی بندش، بجلی کے مسائل سمیت انسانی حقوق اور مفاد عامہ کے مقدمات دائر کرتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طب اور وکالت کا شعبہ عوامی خدمت کے لیے ہے اور اس میں فیس لینے کا تصویر نہیں تھا۔
’میں نے یہ پیشہ خدمت کے جذبے سے اپنایا تھا۔ میرے والد ین اور اساتذہ نے مجھے غریب اور لاچار طبقے کی مدد کرنا سکھایا ہے۔‘

شیئر: