Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ جنگ کے باعث اسرائیل کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، معاشی ماہرین

ایک تاجر کے مطابق موجودہ کاروباری حالات عالمی وبا کورونا کے پھیلنے سے زیادہ بدتر ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
بیت المقدس کے قریب قدیم شہر میں تحائف کی تقریباً تمام دکانیں بند ہیں، حیفہ شہر کے مقامی بازار میں غریب تاجر اپنا سامان جھاڑتے گاہکوں کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں، ایئر لائنز پروازیں منسوخ کر رہی ہیں اور لگژری ہوٹل آدھے خالی پڑے ہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، حماس کے ساتھ جاری جنگ ​​میں تقریباً 11 ماہ گزر چکے ہیں، حکومت کی توجہ غزہ جنگ پر ہے جس کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے بلکہ مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے یہ کہہ کر خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ معاشی نقصان صرف عارضی ہے لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان اب تک کی سب سے خونریز، سب سے زیادہ تباہ کن جنگ نے ہزاروں چھوٹے کاروباری افراد کو نقصان پہنچایا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاشی طور پر ہونے والے نقصان کو روکنے کا بہترین طریقہ ہے۔
اسرائیل کے سینٹرل بینک کے سابق سربراہ کارنیٹ فلوگ جو اب یروشلم کے تھنک ٹینک اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ کے نائب صدر ہیں، انہوں نے کہا کہ ’اس وقت معیشت بہت بڑی غیریقینی صورتحال کا شکار ہے جس کا تعلق سلامتی کی صورتحال سے ہے۔ اسرائیل کی غزہ میں جنگ کب تک جاری رہے گی، اس کی شدت کیا ہو گی یہ سوال تاحال جواب طلب ہے۔‘
غزہ کی پہلے سے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار معیشت کو جنگ نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، جنگ سے 90 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے اور افرادی قوت کی اکثریت بے روزگار ہے، علاقے میں تمام بینک بند ہیں۔

اسرئیل کی جنگ سے غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

حماس کے زیرانتظام علاقے میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق لڑائی میں 40 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں جنگجوؤں کے ساتھ عام شہری بھی شامل ہیں۔
غزہ میں لڑائی اور لبنان میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے روزانہ حملوں نے بھی اسرائیل کی شمالی اور جنوبی سرحدوں کے ساتھ بسنے والے ہزاروں خاندانوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے اور علاقے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
حماس کے ساتھ ہونے والی اسرائیلی کی چھوٹی جھڑپوں کے بعد اسرائیلی معیشت سنبھل چکی تھی تاہم غزہ جنگ نے تنازعے کو طول دے دیا ہے اور تناؤ بڑھ گیا ہے۔

تباہ کن جنگ نے ہزاروں چھوٹے کاروباری حضرات کو نقصان پہنچایا ہے۔ فوٹو: روئٹزر

اسرائیلی معیشت میں تعمیر نو کی لاگت، متاثرین اور ریزرو فوجیوں کے خاندانوں کے لیے معاوضہ اور وسیع فوجی اخراجات شامل ہیں۔
اسرائیل کے خلاف ایران اور اس کی لبنان میں حزب اللہ تنظیم کے ساتھ مزید کشیدگی اور خطرے نے علاقے کی سیاحت پر خاص طور پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ سیاحت معیشت کا ایک بڑا ستون نہیں ہے لیکن ان حالات سے ہزاروں کارکنوں اور عام طور پر چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیلی ٹور گائیڈ ڈینیئل جیکب کا کہنا ہے’ میرا خاندان گذشتہ بچت سے گزارہ کر رہا ہے، سب سے مشکل بات یہ ہے ہم نہیں جانتے کہ جنگ کب ختم ہو گی۔‘

اسرائیل غزہ جنگ کب تک جاری رہے گی، یہ سوال تاحال جواب طلب ہے۔ فوٹو: اے پی

اسرائیلی سکیورٹی فورس میں ریزرو سپاہی کے طور پر چھ ماہ کی ڈیوٹی سے واپس آنے والے 45 سالہ ڈینیئل جیکب نے کہا ہے کہ انہیں اپنی سیاحتی کمپنی بند کرنی پڑی۔
گذشتہ دو دہائیوں کی اچھی سیاحت کے بعد کاروبار ٹھپ ہے، اس وقت واحد آمدن حکومتی امداد ہے، رواں سال کے اختتام سے قبل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔
حیفہ شہر میں قدیم اشیا فروخت کرنے والے اسرائیلی میر سباگ کی دکان بھی خالی نظر آ رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ موجودہ کاروباری حالات عالمی وبا کورونا کے پھیلنے سے زیادہ بدتر ہیں۔
دوسری جانب یمن میں موجود حوثیوں کی جانب سے مصر کی نہر سویز سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں نے خطرات کے پیش اسرائیلی بندرگاہوں کو بطور مرکز استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔

جاری کشیدگی سے بڑی ایئر لائنز  پروازیں معطل کرنے پر مجبور ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

حیفہ بندرگاہ کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’اسرائیلی بندرگاہوں پر سنہ 2023 کی اسی مدت کے مقابلے میں رواں سال کی پہلی ششماہی میں شپنگ میں 16 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔‘
امریکہ کی قیادت میں جنگ بندی کی کوششیں معدوم ہوتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ ایران اور حزب اللہ نے اپنے رہنما کی حالیہ ہلاکت کا بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے، جس سے ایک وسیع علاقائی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
علاقے میں کشیدگی بڑھنے کے خدشات نے ڈیلٹا، یونائیٹڈ اور لفتھانسا سمیت دنیا کی بڑی ایئر لائنز کو اسرائیل کے اندر اور باہر پروازیں معطل کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم اور حکومتی وزارتوں کو مشورہ دینے کا دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے اسرائیلی ماہر اقتصادیات جیکب شینن نے کہا ہے کہ ’غزہ جنگ کی کل اخراجات 120 ارب ڈالر ہو سکتے ہیں۔‘

شیئر: