Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ بندی کی امید معدوم، غزہ میں اسرائیل کے نئے احکامات کے بعد لوگوں کا انخلا

حالیہ دنوں میں اسرائیل نے غزہ بھر میں انخلا کے متعدد احکامات جاری کیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل نے وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلاح کے لیے انخلا کے نئے احکامات جاری کیے جس سے مزید خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فورسز کا کہنا ہے کہ اس نے عسکریت پسند گروپ حماس اور علاقے میں سرگرم دیگر افراد کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے غزہ بھر میں انخلا کے متعدد احکامات جاری کیے ہیں جس پر فلسطینیوں، اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ہے۔
دیر البلاح میونسپلٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی انخلا کے احکامات سے اب تک اڑھائی لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ پیر کو اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم سات فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ دو دیر البلاح میں مارے گئے جہاں تقریباً دس لاکھ لوگ پناہ لیے ہوئے تھے، دو النصیرات کیمپ کے ایک سکول میں اور تین مصر کی سرحد کے قریب جنوبی شہر رفح میں ہلاک ہوئے۔
نئے احکامات نے بہت سے خاندانوں اور مریضوں کو الاقصیٰ ہسپتال چھوڑنے پر مجبور کر دیا جو دیر البلاح کی اہم طبی سہولت ہے اور جہاں لاکھوں باشندوں اور بے گھر افراد نے بمباری کے خوف سے پناہ لی تھی۔
میڈیسن سانس فرنٹییئرز (ایم ایس ایف) نے اتوار کی رات ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ اس کے تعاون سے چلنے والے الاقصیٰ ہسپتال سے تقریباً 250 میٹر کے فاصلے پر ہونے والے دھماکے سے خوف و ہراس پھیل گیا۔
بیان کے مطابق ’نتیجتاً ایم ایس ایف اس بات پر غور کر رہا ہے کہ آیا زندگی بچانے کے لیے علاج کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، زخمیوں کی دیکھ بھال کو فی الحال معطل کرنا ہے یا نہیں۔‘
ایم ایس ایف نے غزہ کی وزارت صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 650 مریضوں میں سے صرف 100 ہسپتال میں ہیں جن میں سے سات انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں۔
مزید کہا گیا کہ ’یہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔ الاقصیٰ ہسپتال مریضوں کے لیے متبادل کی کمی کی وجہ سے کئی ہفتوں سے اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہا ہے۔ تمام متحارب فریقوں کو ہسپتال کے ساتھ ساتھ مریضوں کی طبی دیکھ بھال تک رسائی کا احترام کرنا چاہیے۔‘

قطر، مصر اور امریکہ کی سفارتکاری اب تک اسرائیل اور حماس کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انخلا پر مجبور ہونے والی ایک فلسطینی خاتون سواسن ابو افیش نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے اب تک 11 بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے آدھے بچے پیچھے اپنے سامان کے پاس چھوڑے ہیں اور اب میں اپنے چھوٹے بچوں اور اپنی بیٹی کے ساتھ ہوں، صرف اللہ ہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔ میرے پاس نقل و حمل کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں 17 کے علاقے میں پیدل جاؤں گی جہاں میرا خاندان رہ رہا ہے۔‘
اس کشیدگی سے جنگ کے خاتمے کی بہت کم امید نظر آتی ہے کیونکہ قطر، مصر اور امریکہ کی سفارتکاری اب تک اسرائیل اور حماس کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دونوں فریقین کے لیڈروں نے معاہدے تک نہ پہنچنے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کی۔

شیئر: