Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیلنٹ کی کمی یا کوئی اور وجہ، بگ بیش میں صرف ایک ہی پاکستانی کھلاڑی کیوں؟

آسٹریلیا میں جاری آسٹریلوی کرکٹ لیگ (بگ بیش لیگ) کے 14ویں سیزن کا ڈرافٹ مکمل کرلیا گیا ہے، تاہم پاکستان کے صرف ایک کھلاڑی ہی ایونٹ میں جگہ بنا سکا۔
بی بی ایل 2024 کے ڈرافٹ کے مطابق پاکستان کے اسامہ میر میلبرن سٹارز کی جانب سے کھیلیں گے۔
لیگ سپنر اسامہ میر کو میلبرن سٹارز نے تیسرے راؤنڈ میں منتخب کیا جس سے وہ اس سیزن کے بی بی ایل میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے واحد کھلاڑی ہوں گے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے 70 کھلاڑیوں کی بی بی ایل میں نامزدگیاں ہوئیں تھیں، تاہم ان میں سے صرف اسامہ میر وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہیں کسی ٹیم نے منتخب کیا۔ یوں باقی 69 پاکستانی کھلاڑیوں کو منتخب نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ لیگ سپنر اسامہ میر پہلے بھی میلبرن سٹارز کے لیے کھیل چکے ہیں اور اب وہ آئندہ سیزن میں بھی اسی ٹیم کے ساتھ رہیں گے۔

بی بی ایل میں نامزد ہونے والے کھلاڑی کون کون سے تھے؟

کرکٹ آسٹریلیا کے مطابق کُل 432 کرکٹرز نے بی بی ایل سیزن 2024 کے لیے خود کو رجسٹر کروایا تھا جن میں پاکستان کے 70 کھلاڑی بھی شامل تھے۔
بی بی ایل کے لیے نامزد ہونے والوں میں ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود، سابق کپتان سرفراز احمد، حارث رؤف، فخر زمان اور ابرار احمد شامل تھے۔
ان کے علاوہ قابل ذکر ناموں میں ابرار جمال، عباللہ شفیق، ابرار احمد، احمد دانیال، احسن بھٹی، علی اسفند، علی رضا، ولی شفیق، عرفات منہاس، آصف علی، اذان اویس، دانش عزیز، فہیم اشرف، فیصل اکرم، حارث سہیل، حیدر علی، حسیب اللہ خان اور حنین شاہ بھی بی بی ایل کھیلنے کے خواہش مند تھے۔
حسین طلعت، احسان اللہ، عماد وسیم، امام الحق، عرفان خان نیازی، جہانداد خان، جلت خان، خرم شہزاد، خوش دل شاہ، خرم غلام، نسیم شاہ، رومان رئیس، صاحبزادہ فرحان، سلمان ارشاد، شاداب خان، شاہنواز دہانی اور عمر اکمل شامل تھے۔

بی بی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کی سلیکشن نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟

صحافی فیضان لاکھانی کا خیال ہے کہ ’پاکستانی کھلاڑیوں کی زیادہ تعداد میں شرکت نہ ہونے کی وجوہات میں تجربے یا ٹیلنٹ کی کمی کا مسئلہ نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی دستیابی کا مسئلہ ہے۔‘

بی بی ایل 2024 کے لیے پاکستانی کے صرف اسامہ میر میلبرن سٹارز کی جانب سے کھیلیں گے (فائل فوٹو:بی بی ایل)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فیضان لاکھانی نے بتایا کہ ’اب دنیا بھر میں لیگز بھی زیادہ ہوگئی ہیں اور انٹرنیشنل کرکٹ بھی چل رہی ہے، بگ بیش جن تاریخوں میں منعقد ہوگی ان تاریخوں میں پاکستان کی انٹرنیشنل کمٹمنٹس ہے۔‘
’بگ بیش لیگ دسمبر کے وسط سے جنوری کے وسط تک جاری رہے گی۔ اس دوران پاکستان کو پہلے تین ٹی20، تین ون ڈے اور دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کے لیے جنوبی افریقہ جانا ہے جبکہ اس کے بعد جنوری میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے، ان میچز کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کے اہم کھلاڑی بگ بیش کے لیے دستیاب ہی نہیں تھے۔‘
نجی نیوزچینل سپورٹس اینکر حسنین لیاقت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لیگز میں شرکت کرنے کے لیے کھلاڑیوں کو بورڈ کی جانب سے اجازت نہیں ملتی، این او سیز کے مسائل رہتے ہیں۔‘
’کھلاڑیوں کے تجربے یا ٹیلنٹ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے بورڈ (پی سی بی) کی پالیسیوں کا مسئلہ ہے۔ ہمارا اب تک ٹی20 کھیلنے والا پلیئر پول ہی مکمل نہیں ہے، اگر پلیئر پول دستیاب ہو تو کئی ایک کھلاڑی ایسے ہیں جو بگ بیش سمیت دیگر لیگوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔‘

اس سے قبل حارث رؤف بھی بی بی ایل میں شرکت کر چکے ہیں (فائل فوٹو: بی بی ایل)

حسنین لیاقت نے کہا کہ ’پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، پاکستان میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے لیکن اسے پالش کرنا ہوتا ہے، پی ایس ایل میں کھیلانا ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں پچھلے تین چار برسوں سے پسند ناپسند کا مسئلہ ہے اور اس کے نتائج آپ کو بنگلہ دیش کے ساتھ سیریز میں بھی نظر آئے ہوں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم لگاتار میچز ہارتے آرہے ہیں بل عموم ہماری کرکٹ پستی کی طرف جارہی ہے لیکن جب پی سی بی میں استحکام آئے گا تو پھر کرکٹ بھی پروان چڑھے گی۔‘
بگ بیش میں کھلاڑیوں کی شرکت سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے حسنین لیاقت نے بتایا کہ ’بگ بیش میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو زیادہ تعداد میں کھلانے کا رواج نہیں ہے، اس سے قبل بھی پاکستان کے تین یا چار کھلاڑی ہی منتخب کیے جاتے تھے، دیگر ممالک سے بھی تین تین یا چار چار کھلاڑی ہی شامل ہوتے ہیں۔‘

شیئر: