Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کتنی نئی ایئر لائنز اپنی سروس شروع کر رہی ہیں؟

ایوی ایشن ماہرین کے مطابق پاکستان میں اندرونی ملک پروازیں چلانے کے لیے مارکیٹ میں بہت گنجائش ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
کراچی کے شہری سید یحییٰ علی ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں کام کرتے ہیں، اور یہ ایک درمیانے درجے کی کمپنی ہے۔
سید یحییٰ علی کو کام کے سلسلے میں اکثر اندرونِ ملک سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان کی کمپنی کے دفاتر کراچی کے علاوہ لاہور اور راولپنڈی میں بھی ہیں، جس کی وجہ سے اُن کو بارہا بیرونِ شہر جانا ہوتا ہے۔
یحییٰ علی کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ کچھ مہینوں سے پاکستان میں ڈومیسٹک فلائٹس کا ٹکٹ خریدنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ایئر لائنز کمپنیاں روزانہ ٹکٹ کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کئی بار تو کراچی سے اسلام آباد کا یکطرفہ ٹکٹ 40 ہزار روپے سے بھی مہنگا ہو جاتا ہے۔‘
سید یحییٰ علی کو کبھی ایجنٹوں کے بہانوں، کبھی فلائٹس کی کمی، کبھی ڈالر کی قدر میں اُتار چرھاؤ اور کبھی مسافروں کی بڑھتی ہوئی طلب کا جواز پیش کیا جاتا ہے جس سے ان کی بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
نوید وحید کراچی کے ایک تجربہ کار ٹریول ایجنٹ ہیں۔ اور وہ یحییٰ علی کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اندرونِ ملک پروازوں کے ٹکٹ کا فارمولا حالیہ دنوں میں کافی پریشان کن ہو گیا ہے۔‘

اندرون ملک سفر کے لیے ٹکٹ کیسے سستے ہو سکتے ہیں؟

نوید وحید کے خیال میں اس صورتِ حال کی بنیادی وجہ ملک میں ایئر لائنز کمپنیوں کی کمی اور محدود فضائی آپریشنز ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی مقامی ایئر لائنز کمپنیاں اکثر بیرون ملک پروازیں چلانے کی کوشش کرتی ہیں کیوں کہ اس میں انہیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

کیا پاکستان میں نئی ایئر لائنز کمپنیاں آپریشنز شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں؟

سول ایوی ایشن کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سول ایوی ایشن سے جیٹ گرین، کیو ایئرویز اور گو گرین ایئر نے لائسنس اور اجازت ناموں کے حصول کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایئر انڈس نامی کمپنی نے بھی اپنے فلائٹ آپریشنز دوبارہ شروع کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘
ایوی ایشن امور کے ماہر طارق ابوالحسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے ایوی ایشن کے شعبے میں بہت گنجائش موجود ہے، کئی نئی ایئرلائنز کمپنیاں بھی پاکستان میں آپریشن شروع کرنے کی خواہش مند ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک منافع بخش مارکیٹ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستانی ایوی ایشن میں شامل ہونے والی کئی ایئرلائنز اس وقت اچھا بزنس کر رہی ہیں۔ اسی کو دیکھتے ہوئے کئی نئی ایئر لائنز کمپنیوں نے لائسنسز کے حصول کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ کیا ہے۔‘
ایئر پورٹ اتھارٹی کے سینیئر افسر سیف اللہ خان نے اردو نیوز سے بات کو بتایا کہ ’نئی ایئر لائنز کمپنیوں کی آمد کا طریقۂ کار واضح ہے، منسٹری آف ایوی ایشن میں درخواست جمع ہونے کے بعد وزارت اس معاملے کو دیکھتی ہے، منسٹری سے منظوری کے بعد یہ معاملہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس آتا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی قانون کے مطابق پراسس کرتی ہے، ضروری اقدامات کرنے کے بعد ہی ادارہ کسی بھی کمپنی کو آپریشنز شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘

پاکستان میں گزشتہ چند برس میں ایئر سیال اور فلائی جناح نے سروس شروع کی۔ فائل فوٹو: فلائی جناح

ٹریول ایجنٹ نوید وحید کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اگر نئی ایئر لائنز کمپنیاں آئیں گی تو اس کا فائدہ مسافروں کو بھی پہنچے گا۔ مارکیٹ میں مسابقت کی فضا ہوگی تو ہوائی جہاز کے کرایوں میں بھی کمی ہوگی۔ ماضی میں بھی جب نئی ایئر لائنز کمپنیاں آئیں تو انہوں نے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے مختلف آفرز اور ڈیلز دی تھیں، جس سے ان ایئر لائنز کمپنیوں کے علاوہ مسافروں کو بھی فائدہ پہنچا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بسا اوقات ٹکٹ اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ ہم کلائنٹ کو اس بارے میں بتانے سے ہچکچاتے ہیں کیوں کہ ان کی قیمت خلیجی ممالک کی ٹکٹ کے برابر ہو جاتی ہے۔‘
نوید وحید نے وضاحت کی کہ ’دنیا بھر میں ٹکٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے، مگر اس کا انحصار بنیادی طور پر سیزن اور طلب پر ہے۔ پاکستان میں تو سیزن میں ٹکٹ اکثر کم قیمت پر مل جاتے  ہیں، مگر آف سیزن میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔‘
 انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’کراچی سے لاہور یا اسلام آباد کی پرواز تقریباً دو گھنٹے کی  ہے، جبکہ کراچی سے دبئی یا شارجہ کی پرواز پر بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے لیکن دونوں کے کرایوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔‘
مختلف پرائیویٹ ایئر لائنز کمپنیوں کی انتظامیہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’فضائی سفر کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیاں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قانون کی پابند ہیں، طے شدہ فارمولے کے مطابق ایئر لائنز کمپنیوں کے لیے اندرون ملک کی پروازیں چلانا ضروری ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ ایئر لائنز کمپنیاں اندرونِ ملک پروازوں پر بیرون ممالک کی پروازوں کو ترجیح دے رہی ہیں، کسی طور پر مناسب نہیں ہوگا۔‘

شیئر: