Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اپنی مدد آپ‘ سے ’پاہڑیانوالی‘ پنجاب کا مثالی گاؤں بن گیا

شام کی سرمئی چادر نے سرگودھا کی تحصیل کوٹ مون کے گاؤں پاہڑیانوالی کے حسن میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا تھا۔ گاؤں کے گلی کوچوں میں سٹریٹ لائٹس اور پارک میں موجود روشنیاں تیز ہو رہی تھیں۔
اہلِ دیہہ گھروں سے نکل کر ایک ڈیرے پر گپ شپ لگا رہے تھے جب ایک جانب سے آواز بلند ہوئی، ’گاؤں میں تتلیاں اور پرندے زیادہ ہو گئے ہیں۔
ایڈووکیٹ شاہ نواز منڈ یہ سن کر گویا ہوئے، ’اب تو جگنو بھی رات کے اندھیرے میں چمکتے نظر آتے ہیں۔
 محفل میں قہقہہ بلند ہوا تو ایک بزرگ نے کہا کہ ’یہ سب اس گاؤں کے ماحول کی بدولت ہے۔ کھیل کے میدانوں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اب گھروں میں مقید نہیں رہتے جب کہ پرندوں سمیت دیگر جانداروں کے لیے بھی ماحول سازگار ہو چکا ہے۔
سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن میں چک نمبر 19 جنوبی کے نام سے ایک گاؤں آباد ہے جسے کئی لوگ پاہڑیانوالی بھی کہتے ہیں۔
یہ پنجاب کا ایک ایسا گاؤں ہے جسے مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مثالی گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔
گاؤں میں موجود مسجد، سکول، ہسپتال اور سڑکوں کی تزئین و آرائش ایسے انداز میں کی گئی ہے کہ اس گاؤں پر کسی یورپی ملک کے گاؤں ہونے کا گمان گزرتا ہے۔
یہ ساری محنت ایڈووکیٹ شاہ نواز منڈ اور ان کے ساتھی آصف سجاد چھٹہ کی ہے، جنہوں نے مل کر ’ویلفیئر سوسائٹی‘ کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی اور پھر مقامی لوگوں سمیت بیرونِ ممالک میں مقیم اہل محلہ سے فنڈز جمع کر کے اپنے گاؤں کو ماڈل ویلیج میں تبدیل کر دیا۔

پاہڑیانوالی یا چک نمبر 19 جنوبی؟

اس گاؤں کے دو ناموں کی وجہ بھی ایک کہانی ہے۔ گاؤں کے ایک پارک میں چک نمبر 19 جنوبی واضح طور پر لکھا ہوا ہے جب کہ دیواروں پر ایک عرصہ پہلے لکھا پاہڑیانوالی بھی دکھائی دیتا ہے جو حالیہ تزئین و آرائش کے بعد شاذ ہی نظر آتا ہے۔

مقامی لوگوں کے بقول چک نمبر 19 جنوبی میں ٹیلے اور جنگلات تھے جن کو ایک خوبصورت گاؤں میں تبدیل کر دیا گیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

شاہنواز ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس گاؤں کا نام درحقیقت چک نمبر 19 جنوبی ہی ہے۔ گجرات کے قریب پاہڑیانوالی کے نام سے ایک قصبہ موجود ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ 1901 میں جب یہ گاؤں آباد ہو رہا تھا تو اس وقت گجرات کے پاہڑیانوالی سے ہمارے آباؤ اجداد یہاں آگئے۔ تب سرگودھا ضلع نہیں تھا بلکہ ضلع شاہ پور تھا۔ انگریزوں نے چکوک آباد کیے اور لوگ گجرات سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہو گئے۔ آج بھی ہمارے لوگ اپنی نسبت گجرات کے اس قصبے سے جوڑتے ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ پاہڑیانوالی تو کچھ لوگ چک نمبر 19 کہتے ہیں۔
سرگودھا کی سات تحصیلوں میں سے ایک کوٹ مومن کے مضافات میں موجود چک نمبر 19 جنوبی پورے ضلع کے لیے ایک مثال بن چکا ہے۔
سال 1901 سے لے کر سال 2024 کے دوران یہ گاؤں مکمل طور پر تبدیل ہو گیا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ جب کورونا وبا کی وجہ سے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے تھے تو اس وقت چک نمبر 19 جنوبی کے باسیوں نے اپنے گاؤں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
شاہنواز ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ ’سال 2021 میں جب کورونا وبا پھیلی تو ہم نے اپنے گاؤں کو اپنی مدد آپ کے تحت خوبصورت بنانے کا عہد کیا۔ اس وقت ہم نے ویلفیئر سوسائٹی کا آغاز کیا۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’یہ اس وقت پنجاب کا سب سے خوبصورت گاؤں ہے جہاں ایسی سہولیات بھی میسر ہیں جو شہروں میں بھی نہیں۔
مقامی لوگوں کے بقول چک نمبر 19 جنوبی میں ٹیلے اور جنگلات تھے جن کو ایک خوبصورت گاؤں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس پورے گاؤں کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ پرانی جب کہ دو حصے نئی آبادی پر مشمل ہیں۔ پرانی آبادی میں دیہاتیوں نے کام کر کے اسے ماڈرن ویلج بنا دیا ہے جب کہ باقی دو حصوں میں کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ 

 گاؤں کے ہر در و دیوار کو خوبصورت رنگوں سے مزین کیا گیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

چک نمبر 19 جنوبی، ’ایک ماڈرن ویلج

چک نمبر 19 جنوبی میں داخل ہونے کے لیے ایک طویل سڑک پار کرنا ہوتی ہے جس کے دونوں اطراف میں ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے۔
سڑک کے دونوں جانب کِنو اور بانس کے باغات ہیں۔ اس گاؤں کا کل رقبہ 1400 ایکڑ پر مشمل ہے جن میں سے تقریباً 800 ایکڑ رقبے پر کِنو کے باغات لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح گاؤں میں کِنو کو مزید پراسس کرنے کے لیے فیکٹریاں بھی لگائی گئی ہیں جہاں سے کِنو سے بننے والی مصنوعات بیرون ممالک سمیت ملک بھر میں بھیجی جاتی ہیں۔
چک نمبر 19 کی آبادی چھ ہزار نفوس کے قریب ہے جب کہ یہاں دو سرکاری سکول بھی موجود ہیں جب کہ ایک مسجد بھی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی گئی ہے۔ 
شاہنواز ایڈووکیٹ بتاتے ہیں ک ’یہ ہمارے گاؤں کا سکول ہے۔ ہم یہاں بچوں کو کتابیں، کپڑے، سردیوں میں گرم کپڑے اور دیگر ضروری سامان فراہم کرتے ہیں تاکہ بچے بہترین ماحول میں تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں۔‘  
چک نمبر 19 میں داخل ہوتے ہی ’ویلکم ٹو چک نمبر 19 جنوبی‘ کا بورڈ دکھائی دیتا ہے۔ تین سال قبل یہاں شجر کاری مہم سے گاؤں کو جدید بنانے کا آغاز کیا گیا تھا۔ 

چک نمبر 19 جنوبی کی سڑکیں اگرچہ حکومت نے تعمیر کی ہیں لیکن اس کی خوبصورتی بڑھانے میں مقامی لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

شاہنواز ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ ’تین سال قبل ہم نے جو پودے لگائے تھے وہ آج درخت بن گئے ہیں۔ اسی طرح ہم نے بچوں کے لیے پارکس بنائے ہیں تاکہ وہ موبائل کی دنیا سے باہر آکر فطرت کے قریب تر ہوں اور زندگی سے محظوظ ہوں۔
 گاؤں کے ہر در و دیوار کو خوبصورت رنگوں سے مزین کیا گیا ہے۔ سڑک کے درمیان  گملے رکھے گئے ہیں جن میں پودے لگائے گئے ہیں۔ مقامی دیہاتی آصف سجاد چھٹہ زمیندار ہیں اور پودوں سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ وہ خود ان پودوں کا دھیان رکھتے ہیں۔
19 چک از دی بیسٹ
گاؤں میں جگہ جگہ بڑے بڑے رنگ برنگ ڈرم بطور ڈسٹ بِن رکھے گئے ہیں تاکہ گلی میں کچرا نہ پھینکا جائے جب کہ خاکروب بھی اپنا کام کرتے ہیں جنہیں گاؤں کے لوگ ہی تنخواہ دیتے ہیں۔ ہر ماہ کے آخر میں ہر گھر سے ایک مخصوص رقم جمع کی جاتی ہے جو گاؤں کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔ 
شاہنواز منڈ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے گاؤں میں پرندے کم ہو رہے ہیں اس لیے ہم نے گھونسلے بنائے جن میں آج بے شمار پرندے موجود ہیں۔ گاؤں میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں جب کہ جگہ جگہ واٹر فلٹریشن پلانٹس بھی لگائے گئے ہیں۔‘ 
چک نمبر 19 جنوبی کی سڑکیں اگرچہ حکومت نے تعمیر کی ہیں لیکن اس کی خوبصورتی بڑھانے میں مقامی لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے دو سڑکیں خود تعمیر کی ہیں۔ گاؤں کے مختلف حصوں میں پارکس بنائے گئے ہیں جہاں بزرگوں کے آرام کے لیے بینچ رکھے گئے ہیں جب کہ خوبصورت روشنیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ اسی طرح قبرستان میں بھی شجر کاری کی گئی ہے۔ 
گاؤں کے رہائشی آصف سجاد چھٹہ بتاتے ہیں، ’ہمارا گاؤں پورے پنجاب کا صاف ستھرا گاؤں ہے اور یہ اس قدر صاف ہے کہ میں کہہ سکتا ہوں 19 چک از دی بیسٹ۔‘

مقامی لوگ بھی اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

 وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم نے گاؤں کو ایک ایسے انداز میں ڈیزائن کیا ہے کہ یہاں مویشی آزادی کے ساتھ پھر رہے ہوتے ہیں لیکن گاؤں کی صفائی ستھرائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ ہمارے لوگ ہمہ وقت صفائی میں مصروف ہوتے ہیں۔‘ 
مقامی لوگ بھی اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کوئی بھی ترقیاتی کام کر کے غائب ہوجاتی ہے لیکن اس کو برقرار رکھنا بعدازاں مقامی لوگوں کی ذمہ داری ہی ہوتی ہے۔ 
مقامی رہائشی بشیر احمد بتاتے ہیں کہ ’ہمارے ساتھ اس پورے عرصے میں حکومت کی طرف سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا جو کچھ یہاں کیا گیا یہ صرف اور صرف مقامی لوگوں کی محنت اور سوچ کی بدولت ممکن ہوا۔

شیئر: