وزیراعلی خیبرپختونخوا 24 گھنٹے سے زیادہ منظر عام سے غائب رہنے کے بعد اتوار کو رات گئے اچانک خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے۔
پاکستان تحریک انصاف نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیراعلی کو اسلام آباد کے خیبر پختونخوا ہاؤس سے اغوا کیا گیا۔ تاہم رات کو صوبائی اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران علی امین گنڈاپور اسمبلی میں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ صوبانی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔
قبل ازیں کے پی اسمبلی نے ان کی مبینہ گمشدگی کے خلاف خیبر پختونخوا اسمبلی نے قرار داد منظور کر لی تھی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ صوبہ میں آئینی آرڈر کو بحال کرنا ضروری ہے۔
’وزیر اعلی کی گمشدگی انتظامی سطح پر خط وکتابت کا نہ ہونا چیف سیکرٹری کی ناکامی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور گورنر خیبر پختونخوا کو چاہیے تھا کہ صوبائی حکومت کو آگاہ کرتے۔‘
قرارداد میں سپیکرصوبائی اسمبلی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انٹیلیجنس اداروں سمیت تمام اداروں سے رپورٹ طلب کرے۔
’سپیکر تمام قانونی اقدامات اٹھا کر ایوان کو اعتماد میں لیں۔‘
قرارداد پر سپیکر اسمبلی نے آئی جی، چیف سیکریٹری اور وزیر اعلی کے پرنسپل سیکریٹری کو پیر کو طلب کر لیا۔
علی امین گنڈا پور کو چوبیس گھنٹے میں رہا نہ کیا تو ملک بھر میں احتجاج کی کال دیں گے، اسد قیصر
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے ارکان اسمبلی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب چیف ایگزیکٹو کو اغوا کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل کمیٹی نے علی امین گنڈاپور کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا اور فیصلہ کیا ہے کہ فوری طور پر رہا نہ کرنے کی صورت میں ہر ممکن حد تک جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ غیر آئینی اقدام اٹھا کر علی امین گنڈاپور کو غائب کیا گیا اور انہیں زبردستی اٹھایا گیا، اپوزیشن کو بھی ہمارا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ یہ وقت ان ہر بھی آسکتا ہے۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کو کے پی ہاؤس سے اٹھایا گیا ہے اور اگر چوبیس گھنٹے میں رہا نہ کیا تو ملک بھر میں احتجاج کی کال دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایک ہزار سے زائد کارکن گرفتارہیں، اگر آج ہم اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو آنے والا وقت مشکل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’علی امین گنڈاپور پولیس یا کسی اور ادارے کی حراست میں نہیں، وہ خود بھاگے ہیں‘
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ہماری حراست میں نہیں ہیں۔ علی امین گنڈاپور پولیس یا کسی اور ادارے کی حراست میں نہیں، وہ خود بھاگے ہیں۔‘
اتوار کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ ’علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا ہاؤس میں موجود نہیں، وہاں سے بھاگ گئے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کے پی ہاؤس سے علی امین گنڈاپور کے بھاگنے کی فوٹیج موجود ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی کارکنان کے پی اسمبلی میں داخل، وزیراعلٰی کی ’بازیابی‘ کا مطالبہ
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ’گمشدگی‘ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد خیبرپختونخوا اسمبلی میں داخل ہو گئی۔ اسمبلی ہال میں کارکنوں نے شدید نعرے بازی کی اور وزیراعلٰی کی ’بازیابی‘ کا مطالبہ کیا۔
پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی وجہ سے اسمبلی اجلاس تاحال شروع نہیں ہو سکا تھا۔
صوبائی اسمبلی کے گیٹ کے باہر احتجاج کے دوران گیٹ پر مامور سکیورٹی اہلکاروں نے کارکنوں کے لیے گیٹ کھول دیے جس کے بعد وہ اندر داخل ہو گئے۔ تاہم کارکنوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر پولیس نے اپنی نفری بڑھا دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہشت گردی کی دفعات کے تحت دس ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں، آئی جی اسلام آباد
آئی جی اسلام آباد نے پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت دس ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے کہا کہ وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے احتجاج کی منصوبہ بندی کی اور وہی مظاہرین کی قیادت بھی کر رہے تھے، ان کا ڈی چوک میں دھرنا دینے کا منصوبہ تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس پر مختلف اطراف سے حملے کیے گئے اور احتجاج کے دوران 154 ملین کا نقصان ہوا،441 سیف سٹی کیمروں کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ پولیس کے 31 موٹر سائیکل سمیت تین پرائیویٹ گاڑیوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 26 نمبر چنگی پر سب سے زیادہ توڑ پھوڑ ہوئی اور اس ’تخریب کاری میں صوبہ خیبر پختونخوا کے سرکاری وسائل استعمال ہوئے۔‘
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مظاہرین کی جانب سے کے پی پولیس کے شیلز، کلب، ڈنڈے، ہتھیار اور فیس ماسک استعمال ہوئے جبکہ کے پی پولیس کے 8 حاضر سروس جوانوں کو بھی مظاہرین کے طور پر لایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ہمارے وزیراعلیٰ کو اغوا کیا گیا‘، کے پی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آج
خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آج اتوار کو دن تین بجے طلب کیا گیا ہے۔
صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری نوٹیفیکشن کے مطابق اجلاس میں علی امین گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی اور اسلام آباد میں خیبرپختونخوا ہاؤس میں پیش آنے والے مبینہ واقعے پر بحث کی جائے گی۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارے وزیراعلیٰ کو اغوا کیا گیا، گرفتار کیا گیا، یہ پورے صوبے کی توہین ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت صرف زور اور دباؤ کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانا چاہتی ہے، اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ حملہ ہوا اور بس ختم ہو جائے گا تو یہ غلط فہمی ہے، اس معاملے پر کے پی اسمبلی اجلاس بلا رہے ہیں۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب وزیراعلیٰ کو لاپتہ کرنا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے: بیرسٹر سیف
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا ہے کہ ’ایک منتخب وزیراعلی کو لاپتہ کرنا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ مریم نواز کے پی ٹی آئی بارے بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔۔پی ٹی آئی فارم 47 دہشت گردی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔‘
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ دہشت گردی سے زیادہ نقصان فارم 47 حکومت نے ملک کو پہنچایا ہے۔ فارم 47 کی جعلی حکومت نے ملک کو بنانا ریپبلک بنایا ہوا ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7 اکتوبر کو قلعہ سیف اللہ میں پُرامن احتجاج ہوگا: محمود خان اچکزئی
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے تحریک انصاف کے احتجاج کو وسیع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم اس پُرامن احتجاج کو اب بلوچستان تک وسعت دیں گے۔ یہ احتجاج 7 اکتوبر کو قلعہ سیف اللہ، بلوچستان میں ہوگا۔‘
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’اس سے پہلے میں نے اپنے جلسوں میں بارہا حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ عمران خان کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری باتوں پر کسی نے سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا۔ اب عوام نے اپنا راستہ خود متعین کرنا شروع کر دیا ہے۔ قلعہ سیف اللہ کا عظیم الشان جلسہ سات اکتوبر کو ہوگا۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک کپتان حکم نہیں دیتے، احتجاج جاری رہے گا: پی ٹی آئی
پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کے اعلان تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ ’جب تک کپتان حکم نہیں دیتے، ڈی چوک سمیت ملک بھر میں پُرامن احتجاج طے شدہ طریقۂ کار اور ترتیب سے جاری رہے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کی جبری گمشدگی نہایت شرمناک، اشتعال انگیز، آمرانہ اور وفاقِ پاکستان کے لیے تباہ کن ہے۔ علی امین گنڈا پور کو دن کی روشنی میں پختونخوا ہاؤس پر مسلّح لشکرکشی کرکے 9 مئی کی طرز پر فالس فلیگ آپریشن ٹو کے تحت گرفتار کیا گیا۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں، اسلام آباد پولیس کا اہلکار دم توڑ گیا
سنیچر کو پولیس اور تحریک انصاف کے مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں زخمی ہونے والے اسلام آباد پولیس کے اہلکار کانسٹیبل حمید شاہ دم توڑ گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد پولیس کے افسر حمید شاہ کنسٹیبل جنہیں گذشتہ روز مظاہرے کے دوران شرپسندوں نے اغوا کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا تھا شہید ہو گئے ہیں۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزارت داخلہ نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کر دی
پاکستانی وزارت داخلہ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’ٹھوس شواہد کی روشنی میں پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
وزاعت داخلہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی ایم ملک دشمن بیانیے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہے۔‘
وزرات داخلہ نے پی ٹی ایم پر پابندی کا نوٹیفکیشن باضابطہ طور پر جاری کر دیا ہے جس کے بعد اس پر عم درآمد کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور کے تمام داخلی و خارجی راستے ٹریفک کے لیے کُھل گئے: سی ٹی او
لاہور کے مختلف مقامات سے کنٹینرز ہٹا دیے گئے ہیں جس کے بعد شہر کے تمام داخلی و خارجی راستے ٹریفک کے لیے کُھل گئے ہیں۔
سٹی ٹریفک پولیس آفیسر (سی ٹی او) لاہور عمارہ اطہر نے بتایا کہ شہر کے تمام انٹری ایگزٹ پوائنٹس ٹریفک کے لیے کُھلے ہیں۔ بابوصابو، ٹھوکر نیاز بیگ، شاہدرہ، سگیاں سمیت تمام داخلی و خارجی راستوں پر ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔
موٹروے ایم ون اسلام آباد تا پشاور اور اسلام آباد سے لاہور ایم ٹو موٹروے کو بھی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
لاہور میں جی پی او چوک کے باہر اور کئی دیگر پوائنٹس پر رینجرز اب بھی موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
120 افغان اور خیبر پختونخوا پولیس کے 11 اہلکار گرفتار کر لیے، وزیر داخلہ
پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مجموعی طور پر 564 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 120 افغان باشندے بھی شامل ہیں۔‘
محسن نقوی نے سنیچر کی رات اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام اور راولپنڈی کو مظاہرین سے کلیئر کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا مقصد تھا کہ یہ 17 اکتوبر تک یہاں ڈی چوک میں بیٹھے رہیں اور احتجاج کرتے رہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ لوگ چاہتے تھے کہ لاشیں گریں لیکن ہم نے ان کی حکمت عملی ناکام بنا دی ہے۔ ان کے جتھے مسلح ہو کر اسلام آباد آئے تھے۔‘
وزیر داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’چند ہی گھنٹوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بحال کر دی جائے گی۔‘
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 11 پولیس اہلکار بھی گرفتار کیے گئے۔ مظاہرین میں خیبر پختونخوا کے اہلکاروں کے شامل ہونے کی اعلٰی سطح پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘
’اسلام آباد اور پنجاب پولیس اہلکاروں کو جن افراد نے زخمی کیا ان کے خلاف مقدمات درج کر کے کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔