Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم کا معاملہ: فضل الرحمان سے اپوزیشن اتحاد کے بعد بلاول بھٹو کی ملاقات

26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رات گئے ختم ہونے والی مشاورت کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر متحرک ہو چکی ہیں۔
جمعے کو ایک طرف مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر اپوزیشن کے اتحاد کا اجلاس ہو رہا ہے تو دوسری جانب پارلیمنٹ ہاؤس میں سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بھی جاری ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کے اہم رہنما شریک ہیں جنہیں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اپنے آئینی ترمیم کے مسودے پر بریفنگ دی جا رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچے اور دونوں رہنماؤں کے درمیان مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔
مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ ہے کہ آئینی ترمیم کو متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے تاکہ اس پر کسی قسم کے کوئی تحفظات نہ ہوں، اسی وجہ سے مولانا تحریک انصاف کو تمام مراحل پر ساتھ رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
دوسری جانب پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں بھی تمام سیاسی پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے جو آئینی ترمیم کے کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
گذشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے سینیٹرز کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں نمبر گیم پوری ہو جانے کی تسلی کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جمعے کو آئینی ترمیمی  بل پہلے سینیٹ پیش کیا جائے گا۔ اسی وجہ سے سینیٹ کے اجلاس کا وقت تبدیل کرتے ہوئے اسے شام چھ بجے کر دیا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس چھ بجے ہو رہا ہے۔
تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے مشاورت کا سلسلہ مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آج بھی آئینی ترمیم پیش نہیں کی جا سکے گی۔
اس حوالے سے جب کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ استفسار کیا گیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ ’کسی بھی کام میں جلدی اچھی نہیں ہوتی۔‘
آئینی ترمیم کے معاملے پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں اتفاق رائے کے باوجود جے یو آئی کے سینیٹر کے مبینہ اغوا کے بعد صورتحال ایک بار پھر بگڑ گئی تھی اور مولانا فضل الرحمان نے آج جمعے تک معاملات بہتر کرنے کا الٹی میٹم دے دیا تھا۔

شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی مولانا فضل الرحمان کو فوری طور پر راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی مولانا فضل الرحمان کو فوری طور پر راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
وزیراعظم شہباز شریف رات گئے بغیر کسی پروٹوکول کے مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچے۔ ان کے ساتھ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی موجود تھے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری پہلے سے ہی مولانا کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ ملاقات میں آئینی ترامیم پر تبادلہ خیال ہوا، تاہم وزیراعظم اور بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمن کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور آئینی ترامیم پر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے جے یو آئی اراکین اسمبلی کو ہراساں کرنے پر ناراضگی ظاہر کی۔ انہوں نے وزیراعظم اور بلاول بھٹو سے شکایت کی کہ ایک طرف انہیں آئینی ترامیم پر راضی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف انہی کے اراکین پارلیمنٹ کو غائب کیا جا رہا ہے۔
ملاقات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو بغیر میڈیا سے گفتگو کیے مولانا فضل الرحمن کے گھر سے روانہ ہو گئے۔ بلاول بھٹو نے جاتے ہوئے گاڑی سے وکٹری کا نشان بھی بنایا۔
اس سے قبل مجوزہ آئینی ترمیم پر جمعیت علما اسلام (ف) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے درمیان طویل ملاقات ہوئی۔
تحریک انصاف کی قیادت کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’اگر بدمعاشی ہوگی تو ہم بھی اپنا رویہ تبدیل کریں گے۔ حکومت کا پہلا مسودہ ہم نے پہلے بھی مسترد کیا تھا اور آج بھی مسترد کرتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر تین ہفتوں سے مشاورت جاری ہے۔ ہم نے حکومت سے مذاکرات کیے ہیں اور اس حوالے سے نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تحریک انصاف اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا (فوٹو: سکرین گریب)

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دو دن قبل بلاول بھٹو کے ساتھ اس معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی اور پھر گذشتہ روز چار گھنٹے تک نواز شریف سے بھی بات چیت ہوئی۔ جن نکات پر اتفاق ہوا تھا، ان کا اعلان کیا جا چکا ہے جبکہ باقی متنازع نکات پر بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی کا رویہ مثبت ہے اور وہ ہر مثبت قدم کا خیرمقدم کر رہی ہے، اس پر مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ ’اگر اراکین کو ہراساں کرنے اور خریدنے کا سلسلہ صبح تک نہ رکا تو حکومت یاد رکھے کہ ہم سخت رویہ اختیار کریں گے۔ ہمارے خلوص اور سنجیدگی کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر متنازع ترمیم کے لیے زبردستی ووٹ لیے جائیں گے تو یہ جمہوریت نہیں ہوگی۔ ہم دونوں جماعتوں نے اپنے اراکین کو آرٹیکل 63 اے کے تحت نوٹس جاری کر دیے ہیں، جس میں انہیں پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ دینے کا پابند کیا گیا ہے۔‘

شیئر: