مولانا فضل الرحمان کی حالیہ حیران کُن کامیابی کا راز کیا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم
مولانا فضل الرحمان کی حالیہ حیران کُن کامیابی کا راز کیا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم
منگل 29 اکتوبر 2024 5:29
عامر خاکوانی -صحافی، لاہور
مولانا نے فروری الیکشن میں ناکامی کے بعد جو نیا عوامی بیانیہ بنایا وہ بھی اہم ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستانی کے حالیہ سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے کامیابی کا اندازہ لگایا جائے تو مولانا فضل الرحمن ہر اعتبار سے سرخرو اور فاتح نظر آتے ہیں۔ ان کی حالیہ سیاسی کامیابیاں حیران کن بھی ہیں اور ان میں سیکھنے کے لیے بھی خاصا کچھ موجود ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے دو واقعات بیان کرنا چاہوں گا جن میں سے ایک کے راوی لاہور کے ایک بہت سینیئر صحافی اور ایڈیٹر بلکہ گروپ ایڈیٹرہیں، دوسری بات ایک ذمہ دار اور ثقہ راوی نے میرے سامنے بیان کی تو اس کے لیے کسی اور کی گواہی کی ضرورت نہیں۔ دونوں واقعات لگ بھگ بیس بائیس سال پرانے ہیں، انہیں مگر ایک خاص وجہ سے بیان کر رہا ہوں۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لاہور کے ممتاز صحافی اور ایڈیٹر کی روایت ہے کہ جب ایم ایم اے کو الیکشن میں کامیابی ہوئی، کے پی میں صوبائی حکومت بھی بن گئی تو ابتدائی اجلاس میں قاضی حسین احمد نے کھڑے ہو کر بڑی پرجوش تقریر کی اور کہا کہ ’ہمیں نظریاتی سیاست کرنی چاہیے‘ وغیرہ وغیرہ۔
مولانا فضل الرحمن نے اس کے بعد کھڑے ہو کر بڑے سکون سے ایک بات کہی اور قاضی صاحب کے پورے جوشیلے بیان کو تہس نہس کر دیا۔ روایت کے مطابق مولانا نے کہا: ’حضرات نظریاتی اور دینی کام ہم اپنے مدارس میں پہلے سے کر رہے ہیں، وہاں دین کی خدمت ہی ہو رہی ہے، سیاست میں مفادات اور مقاصد کو سامنے رکھا جاتا ہے، جہاں ہمیں سیاسی فائدہ ہوگا، ہم وہاں جائیں گے، نظریاتی سیاست کے چکر میں اپنا نقصان نہیں کریں گے۔‘
دوسرا واقعہ دلچسپ ہے، ایم ایم اے میں جے یوآئی کے ساتھ موجود دوسری بڑی جماعت کے ایک ذمہ دار نے مجھے بتایا کہ 2002 کے الیکشن کا اعلان ہو گیا، ایم ایم اے بن چکا تھا، ہم نے میڈیا کیمپین کرنا تھی، مولانا فضل الرحمن کو عرض کیا کہ حضرت آپ اپنا حصہ ڈالیں تاکہ اچھی اور موثر میڈیا کیمپین کی جا سکے۔
مولانا نے یہ بات سن کر قہقہہ لگایا اور بولے، ’حضرت ہمارے ووٹر نہ اخبار پڑھتے ہیں نہ ٹی وی دیکھتے ہیں، اس لیے ہمیں تو کسی میڈیا کیمپین کی ضرورت نہیں۔‘ وہ صاحب یہ سن کر مولانا کا منہ تکتے رہ گئے۔
مولانا کے ناقدین ان پر یہی تنقید کرتے رہے ہیں کہ وہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی جوڑتوڑ اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ کسی بدنام اور کرپشن کے الزامات میں ملوث سیاسی جماعت کے ساتھ اقتدار کا حصہ بن جائیں۔
یہ خیال دامن گیر نہیں رہتا کہ کوئی ان پر اقرباپروری کا الزام لگا دے گا۔ شاید اس لیے کہ پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط تھی اور اس لیے بھی کہ انہیں اپنے ووٹ بنک کے پکے ہونے کا یقین تھا۔
مولانا اور ان کی جماعت کی سیاست نشیب وفراز کا شکار رہی۔ ایم ایم اے کا پہلا تجربہ بہت کامیاب رہا، صوبائی حکومت بنی مگر اگلے الیکشن میں انہیں خاصا دھچکا پہنچا اورنہ صرف ایم ایم اے کا وجود نہ رہا بلکہ خاطر خواہ کامیابی بھی نہ ملی۔
دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں بھی ملا جلا رجحان رہا۔ دو ہزار اٹھارہ میں البتہ مولانا کو ذاتی طور پر بڑا دھچکا پہنچا جب وہ اپنے خیبر پختونخوا میں اپنے آبائی حلقوں سے ہار کر اسمبلی سے باہر ہوگئے۔ ان کے صاحبزادے البتہ ایم این اے بن گئے۔
دلچسپ بات ہے کہ اس الیکشن میں وہ ایم ایم اے بنانے کا دوسرا تجربہ بھی کر چکے تھے، مگر وہ بری طرح ناکام ہوا، اتنا ناکام کہ الیکشن کے فوری بعد جماعت اسلامی ایم ایم اے سے باہر نکل گئی۔
2024 کے الیکشن میں بھی مولانا فضل الرحمن اور جے یوآئی کو بری طرح ناکامی ہوئی، مولانا ایک بار پھر اپنے آبائی حلقہ ڈی آئی خان سے شکست کھا گئے، تاہم اس بار انہوں نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پشین، بلوچستان سے جے یوآئی کے ایک محفوظ اور مضبوط حلقے سے بھی الیکشن لڑااور ایم این اے بن گئے۔
بلوچستان سے انہیں یہ سیٹ بیک ملا کہ مناسب تعداد میں صوبائی نشستیں جیتنے کے باوجود وہ صوبائی حکومت نہ بنا سکے اور پی پی پی، ن لیگ نے آپس میں اتحاد کر کے حکومت بنا لی۔
حالیہ الیکشن میں مولانا کو جو شدید دھچکا پہنچا، وہ اس لیے بھی ان کے لیے تکلیف دہ تھا کہ وہ پچھلے تین برسوں میں پی ڈی ایم اتحاد کے سربراہ رہے اور تب ن لیگ اور پی پی پی ان کے ساتھ جڑی رہی۔
وہ تب پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما تھے۔ مولانا کے قریبی حلقوں کے مطابق مولانا کو توقع تھی کہ فروری 2024 کے الیکشن کے بعد انہیں حکومت میں مناسب شیئر ملے گا، وہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اور کے پی کے گورنر شپ کے علاوہ صدرمملکت کے عہدے کو بھی اپنی جماعت کا حق سمجھتے تھے۔ الیکشن کے بعد سب کچھ الٹ ہوا۔
مولانا کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق مولانا فضل الرحمن کو زرداری صاحب سے زیادہ میاں نواز شریف کی سردمہری اور بے نیازی سے دکھ پہنچا۔ مولانا کے خاندان میں فوتگی پر میاں صاحب نے تعزیت کی اور نہ ہی ان کے گھر میں ایک شادی میں شرکت کے لیے میاں صاحب خود گئے یا ان کی جانب سے کسی نے شمولیت کی۔
مولانا فضل الرحمن اس سب پر دلبرداشتہ تو ہوئے، مگر انہوں نے خودترسی کا شکار ہونے کے بجائے اس کا سکون سے بیٹھ کر تجزیہ کیا، اپنے پارٹی کے اندر مشاورت کا وسیع عمل شروع کیا اور اپنی کمزوریوں کا ادراک کیا۔
مولانا کو اندازہ ہوا کہ اصل ناکامی انہیں اپنے بیانیہ میں ہوئی ہے۔ دراصل ہماری بیشتر دینی جماعتوں کی طرح جے یوآئی اور مولانا فضل الرحمن کو بھی اندازہ نہیں ہوپایا کہ روایتی دینی ووٹ بینک میں بھی ڈینٹ پڑ چکا ہے۔ مذہبی گھرانوں کی نئی نسل پر بھی تحریک انصاف کے بیانیہ کا گہرا اثرپڑا ہے جبکہ صوبے کے جنوبی اضلاع میں عوامی جذبات اور احساسات میں کسی حد تک تلخی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ رنگ بھی در آیا۔
مولانا کو اندازہ ہوا کہ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں شامل ہونا ان کی سنگین غلطی تھی، انہوں نے چند وفاقی وزارتیں اور صوبے کی گورنرشپ تو حاصل کر لی، مگر پی ڈی ایم کے کمزور اور شکست خوردہ بیانیہ اور بری گورننس کا بوجھ جے یوآئی کو بھی لے ڈوبا۔
مولانا کو شاید یہ احساس ہوا ہو کہ وہ روایتی ووٹر جو اخبار پڑھتا تھا نہ ٹی وی دیکھتا تھا، اب ان کے گھروں میں بھی موبائل فون کی وجہ سے واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ کا جادو چل گیا ہے۔
دیہی ووٹرز کے لیے بھی اب تحریک انصاف کے بیانیہ کو نظرانداز کرنا یا بے خبررہنا ممکن نہیں۔
مولانا نے یہ سب کچھ اچھی طرح جانچ کر، اپنی پالیسی میں انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں چند ایک ایسی دھواں دھار تقریریں کیں جنہوں نے حقیقی اپوزیشن ہونے کا تاثر پیدا کیا اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی شعلہ بیانی بھی دھندلا دی۔ مولانا نے وہ کچھ بھی کہہ ڈالا جو انصافین اراکین اسمبلی نہیں کہہ سکے۔ اس کے بعد مولانا نے عمدگی سے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپوزیشن کی سیاست جاری رکھی اور جلد ہی اپنی الگ شناخت بنا لی۔
اس وقت پاکستانی سیاست بنیادی طور پر تحریک انصاف اور اینٹی تحریک انصاف کیمپس میں منقسم ہے۔ جے یوآئی فروری کے انتخابات سے پہلے اینٹی تحریک انصاف کیمپ ہی میں تھی۔ مولانا نے اب اپنے آپ کو باہر نکالا اور ایک تیسری آپشن تخلیق کی یعنی ایسی اپوزیشن جماعت جو اینٹی تحریک انصاف ہونے سے زیادہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن چکی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم نے مولانا فضل الرحمن کو مرکزی حیثیت دلوا دی۔ سچ تو یہ ہے کہ ن لیگی اور پی پی قیادت نے مولانا کو اس بار ایزی لیا۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک مضبوط موقف اختیار کیا اور ستمبر کے وسط میں ہونے والے سیاسی جوڑتوڑ میں صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے پہلے ڈرافٹ کو رد کیا اور پھر تین چار ہفتوں تک مذاکرات کا ایسا دور چلا جس میں ہر ایک کی توجہ کا مرکز مولانا فضل الرحمن ہی تھے۔
انہوں نے ایکسٹینشن کے خلاف ایک اصولی موقف اپنایا۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے حکومتی حلقوں میں اگر کچھ سوچا جا رہا تھا، تو وہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔
آئینی عدالت کا تصور بھی پاش پاش ہوگیا۔ ہائی کورٹ ججوں کی روٹیشن سمیت کئی نقصان دہ شقیں بھی ختم کرائیں۔
مولانا فضل الرحمن کا سب سے بڑا کمال یہ کیا کہ اس سب کچھ میں تحریک انصاف کو اپنے ساتھ شامل رکھا، ان کے ساتھ مشاورت رکھی اور پچھلے چند ماہ میں جو کشیدگی کم ہوئی تھی، اسے مزید گھٹایا، بڑھنے نہیں دیا۔
کہا جاتا ہے کہ مولانا نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو سمجھایا، ’اس ترمیم میں ہم ملٹری کورٹس والی شق شامل نہیں ہونے دیں گے، آپ کے قائد پر جو کیسز ہیں، وہ آسانی سے عدالتوں سے ختم ہوجائیں گے، اس لیے جتنا کچھ اس ترمیم سے حذف ہو رہا ہے، اسے ہونے دیں۔ اگر ہم ساتھ شامل نہ ہوئے تو پھر آئینی ترمیم میں کچھ بھی آسکتا ہے۔‘
یہ بات لگتا ہے تحریک انصاف کو سمجھ آ گئی، اس لیے انہوں نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مولانا کو مطعون نہیں کیا اور اس کی مخالفت کرنے کے بجائے تکنیکی طور پر بائیکاٹ کیا۔
مولانا فضل الرحمن کی ایک پرانی خوبی ان کے کام آئی کہ وہ سیاسی انگیجمنٹ کے قائل ہیں۔ زرداری صاحب اور نواز شریف سے ناراضی کے باوجود ان سے ملاقاتیں کیں، ان کی جماعتوں سے طویل مذاکراتی عمل کا حصہ بنے اورآخرکار ایسا درمیانہ راستہ نکال لیا جو کسی حد تک تحریک انصاف کے لئے بھی قابل قبول تھا۔
یہ سب کچھ مولانا نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کیا۔ ان کے قریبی لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت یقینی طور پر جے یوآئی کو اقتدار میں اب شامل کرنا چاہ رہی ہے، مگر مولانا گریز کریں گے۔
مولانا نے فروری الیکشن میں ناکامی کے بعد جو نیا عوامی بیانیہ بنایا وہ بھی اہم ہے۔ انہیں بیانیہ کی قوت کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے۔ اب وہ اپنے ووٹر کو ایزی لیں گے اور نہ ہی کسی وقتی سیاسی فائدے کی خاطر اپنے بیانیہ کو کمزور بنانے کا رسک۔