Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا ’سول نافرمانی کی تحریک‘ کا عندیہ، ماضی میں ایسے احتجاج کتنے نتیجہ خیز رہے؟ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’پنجاب میں پی ٹی آئی کی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ باہر نہیں نکل رہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ 17 اگست 2014 کی شام تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ لاہور سے چلنے کے بعد اسلام اباد کے سری نگر ہائی وے پر سپورٹس کمپلیکس کے سامنے براجمان ہوئے تیسرا روز تھا۔ پہلے دو روز ہونے والی بارش کے باعث اجتماع جم نہیں سکا تھا تاہم اس روز بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔
اس سے چند قدم پیچھے آب پارہ مارکیٹ کے عین سامنے شاہراہ سہروردی پر پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا بھی طاہر القادری کی قیادت میں جاری تھا۔
نواز شریف کی حکومت پوری طرح احتجاجوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اسلام آباد کا ریڈ زون سیل اور تمام شاہراہوں پر کنٹینرز اور سکیورٹی کے انتظامات کے باعث شہریوں کی زندگی مفلوج ہو چکی تھی۔
ایسے میں عمران خان مجمعے سے گویا ہوئے اور اعلان کیا کہ آج سے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جا رہی ہے اور یہ تحریک تب تک جاری رہے گی جب تک نواز شریف مستعفی نہیں ہو جاتے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آج سے گیس اور بجلی کے بل نہیں دیں گے۔ عوام ٹول ٹیکس دینا بند کر دیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی لیگل چینل سے ترسیلات زر بھیجنا بند کر دیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے بعض حصوں میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایتیوں نے بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بلوں کی ادائیگی روک دی۔ خود عمران خان کا بنی گالہ کی رہائش گاہ کا بجلی کا کنکشن عدم ادائیگی کے باعث کاٹ دیا گیا۔
اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں کے کئی ریسٹورنٹس میں شہری جب بل میں سے ٹیکس کی رقم دینے سے انکاری ہو جاتے جس سے کئی ایک جگہ پر جھگڑے اور بدمزگی بھی دیکھنے میں آئی۔ البتہ عمران خان کی اس کال کو عوامی سطح پر کوئی بہت بڑی پذیرائی نہ مل سکی۔
عمران خان کا دھرنا سری نگر ہائی وے سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پہنچ گیا اور احتجاج نے ایک نئی سمت اختیار کر لی۔ 
ایسے میں عمران خان کی جماعت اور عوام سول نافرمانی کی تحریک کو بھول گئے۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ خبر آئی کہ عمران خان نے بنی گالہ کی رہائش گاہ کی بجلی بحال کروا لی ہے اور اس سلسلے میں واجب الادا تمام بقایا جات بھی ادا کر دیے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ’پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا اس تحریک میں شامل ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2014 میں عمران خان کی جانب سے چلائی گئی سول نافرمانی کی تحریک تو ناکام ہوئی تھی لیکن اب انہوں نے ایک بار پھر اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھتے ہوئے پورا نہ ہونے کی صورت میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان واحد رہنما ہیں جنہوں نے دوسری مرتبہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
سنہ 2014 میں اگرچہ عمران خان کو اور ان کی جماعت کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی اس کے باوجود سول نافرمانی کی تحریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 
اب جب کہ ہواؤں کا رُخ بہت حد تک بدل چکا ہے اور بظاہر عمران خان کو پہلے کی نسبت بڑی تعداد میں عوامی حمایت بھی حاصل ہے لیکن سوال پھر یہی ہے کہ کیا اس بار عمران خان کی کال کامیاب ہوگی؟
ماہرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو فروری 2008 میں ووٹ تو مل گئے لیکن اس سے پہلے اور بعد کی تمام تر احتجاجی کالز پر وہ ردعمل سامنے نہیں آیا جو 8 فروری کو آیا۔ 
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے تو تیار ہیں لیکن وہ کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو سے تین ماہ میں جتنے بھی احتجاج ہوئے ان میں خیبر پختون خوا سے تو عوام نکلے لیکن ملک دیگر حصوں سے توقع کے برعکس لوگوں کی شمولیت انتہائی کم رہی۔

سنہ 2014 کے دھرنے میں بھی عمران خان نے سول نافرمانی کی کال دی جسے زیادہ پذیرائی نہ ملی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’سول نافرمانی کی تحریک ایک متروک حربہ ہو چکا ہے‘
14 نومبر کو عمران خان کی جانب سے اُن کی ہمشیرہ علیمہ خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد کی جانب تحریک انصاف کے حتمی مارچ کو فائنل کال کا نام دیا۔ 
انہوں نے اعلان کیا کہ اس بار لوگ صرف اسی صورت میں واپس جائیں گے جب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ 
اگرچہ اس کے ساتھ دیگر مطالبات بھی تھے جن میں آٹھ فروری کے مینڈیٹ کی واپسی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی سمیت نو مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری شامل تھی لیکن سارے احتجاج میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ حاوی رہا۔
عمران خان کی سول نافرمانی کی دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر اینکرپرسن اور تجزیہ کار طلعت حسین کا کہنا ہے کہ ’علیمہ خان نے تو اعلان کیا تھا کہ عمران خان اپنا آخری کارڈ استعمال کریں گے اور ایٹم بم چھوڑ دیں گے لیکن یہ آخری کارڈ تو پھُسپھا پٹاخہ نکلا۔‘
’سابق وزیراعظم نے پہلے بھی سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا تھا اور لوگوں سے کہا تھا کہ وہ بل جمع نہ کرائیں اور اوورسیز پاکستانی ترسیلاتِ زر نہ بھیجیں بعد میں پتا چلا کہ عمران خان نے بنی گالا کے گھر کے بل ادا کر کے اپنی بجلی بحال کروا لی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سول نافرمانی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ہر گلی اور محلے کی سطح پر ایک موثر اور منظم تنظیم کی ضرورت ہے۔‘

’عمران خان نے پہلے بھی لوگوں سے کہا تھا کہ وہ بل جمع نہ کرائیں اور اوورسیز پاکستانی ترسیلاتِ زر نہ بھیجیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طلعت حسین کہتے ہیں کہ ’وہ تنظیم ایسی ہو جو عوام سے رابطے میں ہو اور اس کا اثرورسوخ بھی ہو اور لوگ اس کی بات بھی مانتے ہوں۔ اس تنظیم کا واضح کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہو۔‘
’اگر ایسی تنظیم ہوتی تو اُن کا احتجاج بُرے طریقے سے ناکام نہ ہوتا۔ اگرچہ احتجاج ناکام ہونے کے پیچھے دیگر بھی مسائل موجود ہیں جن میں حکومت کی زور زبردستی بھی شامل ہے تاہم اگر تنظیم موجود ہو تو ایسی زور زبردستی کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پنجاب میں تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے ہی لوگ باہر نہیں نکل رہے۔اگر تنظیم موجود نہیں ہے تو پھر سول نافرمانی پر عمل درآمد کروانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔‘
طلعت حسین کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو یہ کہنا کہ وہ ترسیلاتِ زر نہ بھیجیں ایک احقمانہ فیصلہ ہے۔ 90 فیصد اوورسیز پاکستانی پاکستان کی محبت میں پیسے نہیں بھیجتے بلکہ یہاں اُن کے خاندان اور رشتہ دار موجود ہیں جن کی کفالت کے لیے وہ بیرون ملک گئے اور کمائی کر رہے ہیں ان کے لیے پیسے بھیجتے ہیں ان کے لیے وطن کی محبت بعد میں آتی ہے۔
’ان میں سے کسی کو یہ پریشانی نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی محبت میں اس حد تک جائے کہ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ دے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بھی تحریک انصاف نے اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کا کہا تھا لیکن ترسیلاتِ زر میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔‘
تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق ’سول نافرمانی ایک متروک حربہ ہو چکا ہے۔ اب حالات کافی بدل چکے ہیں اور حکومت سے ملنے والی سہولیات کے بدلے میں عوام حکومت سے تعاون کرنے کا سلسلہ ترک کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔‘

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک اس تحریک کے اہداف طے نہیں کیے گئے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’یہی وجہ ہے کہ 2014 کی سول نافرمانی کی تحریک بھی اتنی جاندار ثابت نہیں ہو سکی تھی۔ اب بھی ایسی کوئی تحریک کامیابی کے ساتھ چلانا خاصا مشکل ہوگا۔‘
’سول نافرمانی کی تحریک ایک اچھا نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر اس سے حکومت کو دباؤ میں لانا مشکل ہوگا۔ اس پر کسی قسم کا عمل درآمد عمران خان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے بجائے انہیں مذاکرات کی میز سے دُور لے جا سکتا ہے۔ اس لیے ایسی کسی بھی تحریک کی طرف جانے سے پہلے عمران خان اور ان کی جماعت کو بہت کچھ سوچنا ہوگا۔‘
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’ابھی عمران خان اور اُن کی جماعت کی جانب سے یہ طے کرنا باقی ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کے دوران کن کن چیزوں اور عوامل کا بائیکاٹ کیا جانا ہے۔‘
’اس میں صرف اور صرف حکومت کو جو چیز پریشان کر سکتی ہے وہ بیرون ملک سے ترسیلاتِ زر کا رُک جانا پریشان کن ہوگا، تاہم اگر شہری لیگل یا بینکنگ چینلز استعمال نہیں کریں تو حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجیں گے جس سے ملک میں پیسہ تو پھر آتا رہے گا۔‘
سول نافرمانی، خیبر پختونخوا حکومت کیا کرے گی؟
یہ بھی محض اتفاق ہے کہ 2014 میں جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی خیبر پختون خوا میں ان کی جماعت کی حکومت تھی اور اب بھی جب عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کر رہے ہیں تو خیبر پختون خوا میں ان کی جماعت برسرِاقتدار ہے۔
سنہ 2014 میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سول نافرمانی کے اعلان کے باوجود خیبر پختونخوا کی حکومت اور پی ٹی آئی عمل درآمد سے انکاری رہی۔

تاریخ میں حکومتوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک سیاسی قائدین کا مہلک ترین ہتھیار رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پیسکو اور سوئی ناردرن گیس کے مطابق خیبر پختونخوا میں وزیراعلٰی ہاؤس، وزیر اعلٰی سیکریٹریٹ اور تحریک انصاف کے صوبائی سیکریٹریٹ کے تمام یوٹیلٹی بلز کی ادائیگیاں جاری رہی تھی۔‘
اس وقت خیبر پختونخوا میں عمران خان کی اپنی پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی، وزرا، مشیروں اور وزیراعلٰی کے ذاتی گھروں کے بلوں کی ادائیگی بھی جاری رہی تھی۔
اس وقت خیبر پختون خوا میں وزیراعلٰی پرویز خٹک تھے جبکہ اب وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور ہیں۔ ایسے بھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت عمران خان کی کال پر کیا لائحہ عمل اپنائے گی؟
اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک عمران خان نے صرف یہ اعلان کیا ہے کہ اگر 14 دسمبر تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے جو کہ بڑے واضح ہیں تو پھر سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔‘
’ابھی تک اس تحریک کے اہداف طے نہیں کیے گئے اور نہ ہی اس کا طریقہ کار سوچا گیا ہے۔ جو مذاکراتی کمیٹی ہے وہ حکومت سے مذاکرات کی کوشش کرے گی اور اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے جائیں گے۔‘
’اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے اور بات اگے نہیں بڑھتی تو ایسی صورت میں عمران خان سول نافرمانی کی تحریک اور اس کے خدوخال سامنے رکھیں گے جن پر پارٹی کے فیصلہ ساز مزید فیصلے کرتے ہوئے آگے بڑھائیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت اس تحریک کا حصہ ہوگی یا نہیں اس کا فیصلہ بھی عمران خان ہی کریں گے۔‘

تجزیہ کار طلعت حسین کے مطابق ’اگر خیبر پختونخوا حکومت اس تحریک کا حصہ بنی تو گورنر راج لگ جائے گا‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

’یہ سب کچھ ایسی صورت میں ہوگا جب یہ واضح ہو جائے گا کہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ رہے اور کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی اور ہمارے مطالبات کو حکومت نے نظر انداز کردیا ہے۔‘
تجزیہ کار طلعت حسین کا کہنا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا حکومت سول نافرمانی تحریک کا حصہ بنی تو گورنر راج لگ جائے گا۔
دوسری جانب ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔
سول نافرمانی کی تحریک کیا ہے؟
سول نافرمانی کا مطلب حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے احکامات اور قوانین کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ اس میں ٹیکس، بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا نہ کرنا شامل ہے۔
اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی آمدنی روک کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس عمل کے نتیجے میں گرفتاریوں یا سزاؤں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
سول نافرمانی کا مقصد مکمل طور پر قانون کو مسترد کرنا نہیں ہوتا، بلکہ مخصوص قوانین پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے جو حکومت کو چلانے میں مدد دیتے ہیں۔
پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریکوں کا انجام
انسانی تاریخ میں حکومتوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک سیاسی قائدین کا مہلک ترین ہتھیار رہی ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں سول نافرمانی کی سب سے مشہور تحریک کا آغاز 1930 میں گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف کیا۔
گاندھی نے احمدآباد میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو نمک کے قانون (سالٹ لا) کے خلاف شروع کیا۔ اس کے بعد 1942 میں ’بھارت چھوڑو‘ تحریک کا آغاز ہوا جو فوری آزادی کے مطالبے کے تحت کی گئی۔

برصغیر کی تاریخ میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز 1930 میں گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف کیا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

پاکستان کی تاریخ میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمان نے 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم کروانے کے لیے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی کال دی۔
 اس تحریک کے دوران ڈھاکہ سمیت مشرقی پاکستان میں پہیہ جام ہو گیا، سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر، سکول، بینک اور کاروباری مراکز بند ہو گئے۔ 
عوام نے حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی بھی روک دی، اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان ٹیلیفون اور ٹیلی گرام کے ذریعے رابطے بھی منقطع ہو گئے۔ اس کے بعد فوجی آپریشن ’سرچ لائٹ‘ کا آغاز کیا گیا۔
سنہ 1977 میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا، 1977 کے انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلیوں کی 200 نشستوں میں 100 پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ 
صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی میں 36 نشستیں حاصل کیں اور نتائج کو مسترد کردیا اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ 
پاکستان قومی اتحاد نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگایا اور پیپلز پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد نے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ بھی کیا۔
اسی طرح 2014 میں بھی عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور کہا کہ جب تک نواز شریف مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک بجلی، گیس کے بل اور دیگر سرکاری واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سول نافرمانی کی تحریک کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، تاہم 2014 میں عمران خان کی جانب سے چلائی گئی تحریک سب سے ناکام سول نافرمانی کی تحریکوں میں شمار ہوتی ہے۔

شیئر: