سعودی عرب میں پہلی بار بین الاقوامی سوتھبیز نیلام گھر کی جھلک
جمعرات 6 فروری 2025 19:54
ریاض میں بین الاقوامی نیلامی کی جھلکیاں نظر آئیں گی جب عالمی شہرت یافتہ نیلام گھر سوتھبیز درعیہ میں 8 فروری کو ہونے والی ’اصل‘ بین الاقوامی آرٹ کی نیلامی کی میزبانی کرے گا۔
عرب نیوز کے مطابق سوتھبیز کے تحت ہونے والا یہ پروگرام سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بین الاقوامی نیلامی قرار دی جا رہی ہے۔
نیلامی میں پیش کئے جانے والے بہت سے منتخب فن پارے ایک ہفتے کی طویل نمائش کے لیے درعیہ کے بجیری ٹیرس میں زائرین کے لیے رکھے گئے تھے۔
سوتھبیز نیویارک و مشرق وسطیٰ میں دور حاضر کے فن کی نیلامی کے سربراہ عشکان باغستانی نے درعیہ میں ہونے والی بین الاقوامی نیلامی ’اصل‘ کے نمایاں فن پاروں کے متعلق کہا ہے’ سعودی عرب میں یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جہاں عالمی اور علاقائی فنکاروں کے نایاب فن پارے فروخت کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں، جو نہ صرف ثقافتی ترقی بلکہ جدید فنون لطیفہ میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
عبدالحلیم رضوی کا فن پارہ ’بلا عنوان‘
عبدالحلیم رضوی سعودی جدیدیت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے فنکار ہیں وہ ان فنکاروں میں شامل ہیں جنہیں مملکت نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ بھیجا تھا۔
رضوی ایسے نایاب فنکاروں میں سے ہیں جو یورپی مصوری کی روایات کو سعودی ثقافت کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہے۔
سربراہ عشکان باغستانی نے بتایا ’ یہ فن پارہ 1980 کی دہائی کے بعد عوامی نمائش میں نہیں آیا، موجودہ مالک نے یہ براہ راست فنکار سے حاصل کیا اور اب ہم نے اسے نیلامی کے لیے منتخب کیا ہے۔
یہ فن پارہ سعودی ثقافت کو بہترین انداز میں پیش کرتا ہے اور اس میں رنگوں کا امتزاج منفرد ہےخصوصاً سرخ رنگ جو رضوی کے فن میں کم ہی نظر آتا ہے۔
منیر فرمانفرمائیان کا فن پارہ ’ مسدس کی تبدیلی‘
منیر کی فنکارانہ پہچان منفرد ہے انہوں نے مغربی تجریدی مصوری کو ایرانی روایات کے ساتھ منسلک کیا اور ان کے فن کا زیادہ تر حصہ صفوی دور سے قاجار دور تک مساجد اور محلات میں نظرآنے والی ایرانی دستکاری سے متاثر رہا۔
منیر نے امریکی طرز تعمیر اور مجسمہ سازی کو روایتی ایرانی دستکاری میں مہارت کے ساتھ ملایا جس سے ان کے آئینہ دار فن پارے تخلیق ہوئے۔
رینی مگریٹ کا فن پارہ ’L'État de Veille‘
مگریٹ کا شمار یورپی مافوق الفطرت مصوری کے سب سے بڑے فنکاروں میں ہوتا ہے۔ وہ بیلجیم کے فنکار تھے اور 1967 میں وفات پا گئے۔
رینی کا یہ فن پارہ 1958 میں تخلیق کیا گیا جو ان کے خاص اسلوب کی عکاسی کرتا ہے، جہاں فن تعمیر اور فطری مناظر ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔
فن پارے میں نیلا آسمان، روئی جیسے بادل اور بیلجیم کی قدیم عمارتوں کے طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔
رفیق اناضول کا تغرہ ’مشین ہیلوسینیشنز: مارس‘
رفیق اپنے فن میں جدید ٹیکنالوجی شامل کرتے ہیں لیکن ان کے شاہکار انسانی احساسات اور ماحول کو نمایاں کرتے ہیں۔ نیلامی میں رکھا گیا فن پارہ ان کے سب سے مشہور فن پاروں میں سے ایک ہے۔
سعودی عرب جہاں روایتی اور جدید فنون دونوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس میں یہ شاندار اضافہ ہے۔
لوئی قیالی کا شاہکار ’پھر کیا؟؟‘
قیالی کو مشرق وسطیٰ کے سوشلسٹ آرٹسٹ میں شمار ہوتا ہے اور وہ عام افراد کی جدوجہد کو اپنے فن میں نمایاں کرتے تھے۔
نیلامی کے لیے رکھا گیا ان کا تغرہ جدید عربی مصوری کا سب سے خاص فن پارہ سمجھا جاتا ہے جو نیلامی میں پیش کیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کی جلاوطنی (نکبہ) نے انہیں گہرے جذباتی اور نفسیاتی اثرات دیے جو اس فن پارے میں جھلکتے ہیں۔
اس مصوری میں ایک طرف ماضی اور دوسری طرف مستقبل کی جھلک نظر آتی ہے، جہاں ایک شخص آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کر رہا ہے’اس کے بعد کیا؟
عاصم ابو شکرہ کا فن پارہ ’بلا عنوان‘
اسرائیل میں عرب فنکار کے طور پر رہنے والے عاصم 28 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
انہوں نے اپنی زندگی میں اکثر کیکٹس کے پودے کو بطور موضوع چُنا جو سخت حالات اور کم پانی میں بھی زندہ رہتا ہے اور اپنے کانٹوں کی مدد سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔
کچھ کیکٹس ختم ہونے سے قبل پھول نکالتے ہیں جو خوبصورت استعارہ ہے۔
عاصم کے فن پارے عام طور پر سبز، بھورے اور سرمئی رنگوں پر مشتمل رہے جن میں خاص قسم کی اداسی کی جھلک نظر آتی ہے۔