وطن عزیز کے شب و روز سوچ پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں
* * * *جاوید اقبال ۔ ریاض* * *
پریشانی ہے ، بہت پریشانی ہے ، وطن عزیز کے شب و روز سوچ پر لرزہ طاری کرتے ہیں ۔ معروف برطانوی مصنف جارج آرویل نے The Animal Farmکے زیر عنوان ایک ناولٹ لکھا تھا ۔ جب ماسکو کے دروبام پر لرزہ طاری کرنے کے بعد لینن نے روس پر قبضہ کیا تھا تو بالشویک انقلاب کی تکمیل ہو گئی تھی ۔ جارج آرویل کی یہ مختصر شہرۂ آفاق تصنیف اسی انقلاب کی ہجو تھی ۔ Manor Farm(مینر فارم) نامی ایک مزرعے کا مالک مسٹر جان اپنے جانوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے جبکہ ان سے دن رات مشقت بھی لیتا ہے ۔ انہیں انتہائی قلیل مقدار میں چارہ دیتا ہے ۔ جانور اس سے نالاں ہیں لیکن لاچار ہیں ۔ تب ایک رات جب مسٹر جان باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول جاتا ہے تو جانور بغاوت کرتے ہیں ۔ مالک کو مزرعہ سے بھگا دیتے ہیں اور اپنی آزادی کا اعلان کر دیتے ہیں ۔
آہستہ آہستہ 2خنزیر وہاں اپنی حکومت قائم کر لیتے ہیں ۔ آزاد مزرعہ کا ایک آئین مرتب کیا جاتا ہے ۔ سات شقیں دیوار پر تحریر کی جاتی ہیں ۔ پہلی شق کے مطابق جوبھی 2ٹانگوں پر چلتا ہے دشمن گردانا جاتا ہے ۔ دوسری شق واضح کرتی ہے کہ سب 4ٹانگوں پر چلنے والے دوست ہیں ۔ تیسری شق میں کہا جاتا ہے کہ کوئی جانور لباس نہیں پہنے گا جبکہ چوتھی شق جانوروں کو حکم دیتی ہے کہ وہ بستر میں نہ سوئیں ۔ پانچویں شق کے مطابق شراب جانوروں کیلئے ممنوع قرار دی گئی جبکہ چھٹی شق میں کسی بھی جانور پر دوسرے جانور کا قتل حرام قرار دیا گیا اور آخری شق میں یہ واضح کیا گیا کہ سب جانور برابر ہیں ۔
انقلاب کو کامیاب کرنے کیلئے سارے جانور جان توڑ مشقت کرتے ہیں ۔ اب جبکہ آزادی اور خودمختاری مل چکی تھی اور ستم پرور مسٹر جان سے جان چھوٹ چکی تھی یہ لازم ہو گیا تھا کہ ہر جانور پہلے سے بھی زیادہ محنت کرتے ۔ دونوں خنزیروںکے احکامات تھے۔ صبح و شام کام ہوتا لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ مزرعہ کی پیداوار گھٹتی جا رہی تھی ۔ کھانے کو بھی کم ملتا تھا اور کسی کو دم مارنے کی اجازت بھی نہ تھی ۔ یہ کہا جاتا کہ اگر شکایت کی گئی تو مسٹر جان واپس فارم پر قبضہ کرلے گا اور وہی ظلم و ستم کا دور لوٹ آئے گا ۔ اس کے علاوہ برسرِ اقتدار دونوں خنزیروں نے کتے پال لئے تھے جو جانوروں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے ۔ پھر چند بھیڑیں تھیں جو ہر وقت4ٹانگیں اچھی ، 2ٹانگیں بری کی گردان الاپتی رہتی تھیں ۔ جب کبھی دونوں راہنمائوں نے جانوروں کے اجتماع سے خطاب کرنا ہوتا ، بھیڑوں کا گلہ پہلے اپنے رٹے رٹائے اس جملے کی لگاتار گردان کرتا ۔ مجمع پر خاموشی چھا جاتی ۔ اس دوران میں فیصلہ ہوا کہ مزرعہ میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سرِ شام تاریکی چھا جاتی ہے چنانچہ ایک پن چکی کی تعمیر کی جائے ۔ کام شروع ہوا سوائے دونوں راہنمائوں کے ہر جانور کام میں جت گیا ۔ ان میں باکسر نام کا ایک گھوڑا بھی تھا ۔
بے انتہا محنتی ، سوائے کام کرنے کے اسے کچھ سوجھتا ہی نہ تھا ۔ اس کی مشقت ضرب المثل بن چکی تھی اور ہر جانور اس کے خلوص اور دیانت کی تعریف میں رطب السان تھا ۔ پن چکی تکمیل کے قریب تھی کہ مسٹر جان اور اس کے ساتھی مزرعہ پر دوبارہ قابض ہونے کیلئے حملہ آور ہوگئے ۔ مشقت اور بھوک سے نڈھال جانوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آدمیوں کو پسپا ہونا پڑا لیکن پن چکی تباہ ہو گئی ۔ اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز ہو گیا ۔ آزاد ی کے خواب صرف خواب ہی رہے تھے ۔ کم خوراکی اور مشقت ان کے بدنوں کو لاغر کرتی جا رہی تھی ۔ اسی دوران گھوڑا باکسر بیمار پڑا اور بجائے اس کا علاج کرانے کے اسے قصاب کے سپرد کر دیا گیا ۔ البتہ عیش و عشرت کا دور دورہ تھا ۔
انہوں نے پڑوسی مزرعوں کے مالک انسانوں کے راہ و رسم پیدا کر لی تھی اور ان سے تجارتی تعلقات استوار کر کے اپنے کھیتوں کی پیداوار انہیں فروخت کر رہے تھے ۔ یہ حکم بھی دیا جا چکا تھا کہ اگر ان حاکم خنزیروں کے بچے راہ چلتے جانوروں کے سامنے آجائیں تو جانور فوراً ان کیلئے احتراماً راستہ چھوڑ دیں ۔ 7نکاتی منشور میں آہستہ آہستہ تبدیلی متعارف کرا دی گئی تھی ۔ اب نئی شقیں کچھ یوں تھیں سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور زیادہ برابر ہیں ۔ کوئی جانور بغیر چادر کے بستر پر نہیں سوئے گا ۔
کوئی جانور کثرت سے شراب نہیں پئے گا ۔ چار ٹانگیں اچھی ، دو ٹانگیں بہتر اور کوئی جانور غیر مناسب لباس نہیں پہنے گا اور پھر ایک رات سراب زدہ فاقہ کش جانوروں نے اپنے رہنمائوں کی خوابگاہ سے اٹھتی ہائو ہو سن کر کھڑکی میں سے جھانکا تو عجب منظر تھا ۔ انسانی لباس میں دونوں جانور راہنما پڑوسی انسانوں کے ہمراہ کرسیوں پر بیٹھے نائو نوش میں مشغول تھے ، انہی کی طرح قہقہے لگا رہے تھے ۔ پھر ایک اور کلاسیک یاد آتا ہے ۔ معروف برطانوی ڈرامہ نویس کرسٹوفر مارلو کا تحریر کردہ ، ڈاکٹر فاسٹس کے زیر عنوان لکھے اس کھیل نے واضح کر دیا ہے کہ جب حرص جاہ و چشم حد سے گزرتی ہے تو انسان اپنے آپ کو بھی فروخت کر دیتا ہے ۔
کھیل کا مرکز ی کردار ڈاکٹر فاسٹس بے پناہ طاقت کا طلبگار ہے اور اس کے حصول کیلئے وہ شیطان لو سیفر کے نمائندے میفسٹو فلز سے معاہدہ کرتا ہے ۔ وہ التماس کرتا ہے کہ اسے لوسیفر بے انتہا قوت دے دے اور اس کے بدلے میں جب چاہے اس کی جان لے لے ۔ چنانچہ ڈاکٹر فاسٹس کو شیطان اس کی حسب خواہش طاقت دے دیتا ہے لیکن پھر ایک نقطہ آجاتا ہے جونہی فاسٹس اپنی قوت کا استعمال شروع کرتا ہے لوسیفر حسب معاہدہ فاسٹس کی جان لینے کیلئے پہنچ جاتا ہے ۔
تکمیل آرزو اور پھر شکست آرزو کے اس موضوع پر مختلف زبانوں میں ادب پارے تخلیق کئے گئے ہیں ۔ کل صبح لاہور کی رنگ روڈ کے فٹ پاتھ سے پولیس کی ایک گاڑی ایک نیم برہنہ مدقوق نوجوان نشئی کی لا ش اٹھائے لئے جا رہی تھی ۔ ٹی وی کے سارے چینل سپریم کورٹ کی مرتبہ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ کا تجزیہ کر رہے تھے ۔ کروڑوں ، اربوں کی باتیں تھیں ۔ کوئی مجھے بتائے کہ جارج آرویل اور کرسٹوفر ماریو کے لکھے یہ 2شاہکار کیسے میرے ذہن میں آگئے