Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

درشت لہجہ شیریں جملو ں میں تلخی گھول دیتا ہے،اسماءایوب

 
 صحافت ،حکمران اور رعا یا کے درمیان پل ہے جس پر دو نو ںجانب ٹریفک آ تی جا تی ہے، ہوا کے دوش پر گفتگو 
تسنیم امجد ۔ ریاض
یہ صحیح ہے کہ دورِ حاضر میں اطلاعات ومعلومات کی دنیا میں سیٹلا یٹ چینلز ،مو با ئل فون ،انٹرنیٹ اور ٹیبلٹس جیسی ٹیکنالوجی کی حَسین و خوبصورت نزاکتوں نے ہر ذی حیات کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ ان کے سامنے اخبار بالکل بے کار شے دکھائی اور سجھائی دیتا ہے۔ ان تمام تر حقائق کے باوجود اخبار نابود نہیں ہوا بلکہ اپنے قارئین کے ذوق و شوقِ مطالعہ کے باعث آج بھی کسی نہ کسی درجے میں زندہ ہے ۔ اس کا سبب شایدیہ ہے کہ اخبارمرقوم حقیقت ہے، مرتسم تاریخ ہے ، لفظوں میں ڈھلا ماضی ہے،قرطاس پر مترشح احساسات کامرقع ہے،عدم کی جانب محوِ سفرقافلہ¿ وقت کے قدموں کا نقش ہے۔ اس کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ جدت ہمیشہ قدامت کے باعث اور حال ہمیشہ ماضی کی وجہ سے ہی جانا، پہچانا جاتا ہے۔ آج مختلف پکوانوں کے لئے درکار مصالحے پسے پسائے مل جاتے ہیں۔ ان میں ماضی جیسا ذائقہ نہیں کیونکہ گئے وقتوں میں گرہستنیں نازک ہاتھوں سے سِل بٹے سے مصالحے پیستی تھیں۔ ان سے تیار پکوان اپنی مثال آپ ہوتے تھے کیونکہ ان میں محنت کے ساتھ ساتھ محبت و اپنائیت، خلوص وچاہت کا ذائقہ شامل ہوتا تھا۔ جدت اور قدامت کی ایک اور مثال حال کا ٹشو پیپر اور ماضی کا رومال ہے۔کہاں وہ رومال جسے دلہن اپنے دولہا کو تحفتاً پیش کرتی تھی ، اس پر پھول اور دولہا کا نام کاڑھتی تھی،اس کے کنارے سیتی تھی۔ اس کو خوشبو سے معطرکرتی تھی اوردولہا میاں جب شیروانی یا کوٹ پہن کر گھر سے باہر نکلتے تو رومال کو یوں سینے سے لگائے رکھتے کہ یہ دیکھنے والوں کو دور سے ہی جیب سے جھانکتا نظر آتا تھا۔رومال کی پائداری ایسی کہ ذرا بھی میلا یا ”پراگندہ“ ہوتا تو دلہن اسے دھوتی، استری کرتی، اس کی تہیں جماتی اور سرتاج کو پیش کرتی تھی۔ کہاں آج کا ٹشو پیپر کہ کھایا، گرایا، پونچھا پونچھایا اور پھینک دیاکیونکہ ناپائداری ایسی کہ دھلنا دھلانا تو دور کی بات،اس پر تواوس بھی پڑ جائے توسراٹھانے کے قابل نہ رہے۔ 
ہوا کے دوش پر ہماری مہمان ”اسماءایوب خان“ہمیں باور کرا رہی تھیں کہ آج بھی ذوقِ مطالعہ کے حامل ایسے قارئین گھر گھر موجود ہیں جوجدت کے دور میں قدامت کی نشانی اخبار کو اسی شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کے لِو نگ روم میں صبح صبح وسطی میز پراخبار کی موجودگی ضروری ہے۔میرے والدین آنکھ کھلتے ہی بیڈ ٹی کی طلب کی طرح اخبار کا پو چھتے تھے۔ان کی طرح ہم سب بہنوں کو بھی اس کا جنو ن ہو گیا۔اخبار کے شوق سے ایک تو معلومات میں اضافہ ہوتا دوسرا وقت بھی اچھا گزر جاتاتھا۔گھر میں اسی تسلسل نے مجھے اردوکی جانب راغب کیا اوراس کا انجام یہ ہوا کہ میں نے وفاقی اردو یو نیور سٹی سے ماس کمیو نیکیشن میں ما سٹرز کرلیا۔مجھے وہ دن یاد ہیں جب کاپی پینسل لے کر میںگھر میں ہر ایک فرد سے انٹر ویو کے انداز میں کسی بھی مو ضو ع پر سوا لات شروع کر دیتی تھی۔
آنسہ اسماءایوب خان نہا یت خوش خلق شخصیت کی حامل ہیں۔وہ خود وطن میں ایک مشہور جریدے سے وا بستہ ہیں لیکن اردو نیوز کی میز بانی پر بہت خو شی کا اظہار کر رہیں تھیں۔ان سے گفتگو کا سلسلہ نہایت دلچسپ رہا۔وہ رہ ِ حیات میں خوب سے خوب تر کی جد و جہد میں مگن ہیں۔شہر کراچی کی رو نقو ں کے سنگ میڈیا کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتیں منوا چکی ہیں۔ہوا کے دوش پر وہ ہمارے رو برو نہا یت شو ق سے اردو نیوز پر بات کر رہی تھیں۔کھڑکی کا ایک پٹ کھلا تھا اوربرسات کی پھوار اندر آ رہی تھی ۔ ہم صرف دیکھ کر ہی مو سم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔اسما ءخان نے سلسلہ¿ کلام شروع کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ابھی میںاپنے حصے کا کام نمٹا کر آپ سے گفتگوکے انتظار میں تھی۔ہم نے انہیں بتا یا کہ اردونیوز8 صفحات کا ننھا سا روز نامہ ہے مگراپنی ذات میں کتنا مکمل ہے۔گھر کا ہر فرد اس میں اپنی مر ضی اور دلچسپی کے صفحات ڈھو نڈ لیتا ہے۔ یہ وطن سے دور اردو داں طبقے کا محبوب ترین اخبار ہے۔مملکت کے علاوہ دیگر خلیجی ممالک میں بھی اس کی مقبو لیت کا سنکر خو شی ہوتی ہے ۔یہ جریدہ تمام اردوداں حضرات و خواتین کو ملکی و غیر ملکی حالات و سیاسی معلو مات کے ساتھ ساتھ دینی امور سے آگہی بھی فراہم کرتا ہے۔
  اسماءایوب خان نے کہا کہ یہ دنیاحسن فطرت کا مر قع ہے۔ انسان کو چا ہئے کہ فطرت کے اس حسن کا نظارہ کرے۔اس پر غور کرے،اسے سمجھے اور اس حسن کے خالق،اس تصویر کے مصوراور اس کا ئنات کے مالک کی تعریف و تو صیف بیان کرے۔ اسی تک رسائی کی کوشش کرے۔اس طرح وہ اپنی زندگی اور اپنے وجو د کے مقصد کو پا سکتا ہے۔تر تیب و تنظیم در حقیقت حیاتِ انسانی کا حسن ہے۔ہمیں اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ اسی تنظیم و تر تیب میں ڈھا لنا چا ہئے۔ہم اپنی محدود سوچ کے مطابق نظام قدرت کے راز سمجھنے کی کو شش میں مگن رہتے ہیں مگر تہہ تک پھر بھی نہیں پہنچ سکتے کیو نکہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی عظمتوں اور حکمتو ں کا احاطہ نہیں کر سکتی پھر بھی ہم حتی ا لا مکان کو شش کرتے ہیں کہ اپنی تخلیق کا حق ادا کر سکیں۔اس کے لئے اپنے ارد گرد کے وسائل سے استفا دہ کر نے کی تگ و دو میںمصروف رہتے ہیں۔یو ں کہئے کہ :
ہر جاتری قدرت کے ہیں لا کھو ں جلوے
حیراں ہو ں کہ دو آ نکھو ں سے کیا کیا دیکھو ں
اسماءایوب خان کو فخر ہے کہ وہ میڈیا سے منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافت ،حکمران اور رعا یا کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے جس پر دو نو ںجانب کی ٹریفک آ تی جا تی رہتی ہے۔یہ عوامی رحجا نا ت کی جا نب حکو مت کو متوجہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کیو نکہ اس میں تمام طبقات کے افکار و آراءکا خلا صہ ہو تا ہے۔میں نے پی ٹی وی یعنی پا کستا ن ٹیلی و ژ ن میں نیو ز اینکر کی حیثیت سے بھی خود کو ثابت کیا ہے۔میرا تعلیمی کریئر شاندار رہا ۔مجھے کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔انٹر کے بعد بعض نا گزیر حالات کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا لیکن والدین کی دعا ﺅ ں سے10 برس آنکھ جھپکتے گزر تے محسوس ہو ئے اور کا میا بیو ں کی شرو عات نہا یت او لو العز می سے ہو ئی ۔میں نے اپنے خوابو ں کوتعبیر میں ڈھالنا تھا۔اسماءہنستے ہو ئے کہنے لگیں:
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سا نسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہو ئے تو بکھر جا ئیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جا ئیں گے
خواب توروشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہا ڑو ں سے رکتے نہیں
روشنی اورنوا اور ہوا کے علم
مقتلو ں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
میرے والد محمد ایوب خان کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ وا لدہ طا ہرہ ایو ب کراچی سے تعلق رکھتی ہیں ۔اس طرح سندھ اور پنجاب کے سنگم سے ہمارے گھر کی ثقافت پروان چڑ ھی۔دو نو ں کے درمیان مثالی ذہنی ہم آہنگی نے گھر کے ما حول کو نہایت خو شگوار بنائے رکھا۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھا ئی ہیں۔وا لدین کی تو جہ اور تر بیت سے الحمد للہ، سبھی کا میا بی سے اپنی اپنی منز لو ں کی جانب رواںدواں ہیں۔ بڑی بہن صائمہ جا وید مملکت کے شہر الخبرمیں ہیں۔وہ وہا ں بیو ٹیشن ہیں۔ میں منجھلی ہوں جبکہ چھو ٹی بہن ڈاکٹر ارم خان اسلام آ باد میں ہے۔ بڑی بہن کی بیٹی سدرہ جا وید بچپن سے ہی ہما رے ساتھ رہی،اب وہ نانی کو ہی ما ں کی طرح چاہتی ہے ۔ اس طرح یو ں لگتا ہے جیسے ہم 3نہیں بلکہ 4 بہنیں ہیں۔
ننھیال کا گھر بھی کیا خوب ہو تا ہے ۔اکثر بچے اس کی مٹھاس کے شیدائی ہو تے ہیں۔بچپن میں اکثر اس پر کہانیا ں سنتے تھے۔نہ جانے وہ کیا نظم تھی، اب تو بس یہی یاد ہے کہ ” نا نی کے گھر جا ئیں گے ،مو ٹے ہو کر آئیں گے “۔
ہما را اکلو تا بھا ئی محکمہ پو لیس میںایک ذمہ دار افسر ہے۔والدین نے ہما ری تعلیم پر خصوصی تو جہ دی۔امی جان کو میں نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔وہ ہمیں بھی اکثر و بیشتر نصیحت کر تیں کہ ہمیشہ انداز گفتگو نرم رکھنا ،یو ں لگے کہ جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔لب و لہجہ درشت ہو تو وہ شیریںجملو ں میں بھی تلخی گھو ل دیتا ہے ۔اس سلسلے میں وہ چھو ٹی چھو ٹی کہا نیا ں سنا تیں جو مجھے ابھی تک یاد ہیں ۔آج میڈیا پر آنے کا مو قع ملا تو بہت خو شی ہو رہی ہے۔اماں سے اپنی محبت کا اظہاریو ں کر نا چاہو ں گی :
 محبت عشق چاہت کا جو رشتہ ہے ،مری ماں ہے
بشر کے روپ میں گویا فرشتہ ہے ،مری ماں ہے
 بِنا جس کے میری ہستی کے سارے رنگ پھیکے ہیں
 وہی اک دلنشیں ،خوش رنگ رشتہ ہے ،مری ما ں ہے
امی جان،جا نورو ں سے بہت پیا ر کر تی ہیں۔وہ فا رغ وقت اپنے پالتو جانوروں کے سا تھ گزا ر تی ہیں ۔اکثر ان سے با تیں کر تی ہیں تو یو ں لگتا ہے کہ وہ سب ہماری امی کی زبان سمجھ رہے ہیں۔امی جان نے ہم بہنو ں کو گھر داری کی مکمل تر بیت دی،اسی لئے مجھے کو کنگ اور سلائی کڑ ھا ئی سے بھی خوب رغبت ہے۔امی کہتی ہیںکہ لڑ کیو ں کے لئے گھر داری بہت ضروری ہے۔آجکل مائیں اس طرف کم تو جہ دے رہی ہیں۔اسی لئے لڑ کیو ں کو مسا ئل کا سا منا کرنا پڑتا ہے ۔میڈیا اور ٹیکنا لو جی نے مصرو فیات کا رخ مو ڑ دیا ہے جبکہ نسل نو کو آگہی کی سخت ضرورت ہے ۔
اسماءایوب خان کو اپنی روا یات سے محبت ہے،ان میں پا کستا نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔کہنے لگیں یہ سب گھر کے ماحول اور والدین کی تر بیت کا اثر ہے۔والدین کے روابط و با ہمی تعاون اولاد کی شخصیت پر اثر انداز ہو تا ہے ۔اس کے نتا ئج بہترین رہتے ہیں۔آج افرا تفری کا دور ہے،ایسے میں گھر ہی ایسا ٹھکانہ ہے جس کو مثل جنت ہو نا چا ہئے۔مسا ئل جینے کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ان سے مردانہ وار مقابلہ ہی شاندار نتائج دکھا تا ہے ۔
والدین نے مجھے ہمیشہ آگے بڑھنے کا حو صلہ دیا ۔میں نے سندھ اسمبلی کے اجلاسو ں کی کارروائی بھی لا ئیو ٹرانسمیشن میں نہایت کامیا بی سے کی۔ایک نجی چینل پر بطور نیوزآفیسر کام کیا ۔ریڈیو پا کستان میں بھی کا میا بی کے جھنڈے گاڑے۔آجکل ایک نجی چینل کے اخبار میں واحد خاتون جرنلسٹ ہو ں۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ کام کو سنبھال لیتی ہو ں۔
ہم نے اسماءسے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگیں،اس سلسلے میں یہی کہو ں گی کہ انسان کی قدر کرنے والا ہی زندگی کابہترین ساتھی ثابت ہو سکتا ہے۔دین اسلام کے مطابق میا ں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔کس قدر خو ب صو رت وضا حت ہے۔والدین کی دعائیں ساتھ ہیں۔ان شاءاللہ مستقبل سے پر امید ہو ں۔
  اسماءایوب خان نے آج کل کے حالات کو مد نظر رکھتے ہو ئے نسل نو کے نام ایک پیغام میں کہا کہ اچھے دوستو ں کا حلقہ صحت مند سوچ کو جنم دیتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ سوچ سمجھ کر دوست بنانے چاہئیں۔آپس کی رنجشو ں کو طول نہیں دینا چاہئے کیو نکہ یہ طوالت لا وے کی صورت ا ختیار کر لیتی ہے اور نتا ئج ما یو س کن ہو تے ہیں ۔ٹیکنالوجی سے استفادہ ضرور کریں لیکن وقت کا ضیاع نہیں ہو نا چاہئے۔ماضی قریب میں جب کیبل ،سیل فون اور کمپیو ٹر عام نہیںتھے تو معا شر تی تہذ یب عام تھی۔ بڑوں کا ادب و احترام عادات کا حصہ تھا لیکن اب سب کچھ مفقود ہو تا جا رہا ہے جبکہ یاد رکھنا چاہئے کہ اقدار کبھی نہیں بدلتیں بلکہ بے بسی سے وقت کی دھول تلے دب کر احساس بیدار ہو نے کی منتظر رہتی ہیں۔قرآن پاک ہماری رہنمائی کے لئے ہمارے پاس مو جو د ہے ۔اپنے مثبت راستے ہمیں خود ہی تلاش کرنے ہوں گے۔یہ کسی دکان سے نہیں مل سکتے ۔ہمارا وجود ہی ان کا مسکن ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں اسماءنے کہا کہ مجھے ادب سے لگا ﺅ ہے ۔میرے پسندیدہ شاعر ،غالب ،وصی شاہ اور پروین شاکر ہیں۔کچھ پسند آپ کی نذ ر ہے:
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
 سوائے خون جگر ، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہوئے پر ،ہوا اڑا لے جا ئے
وگر نہ تاب و تواں، بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے
کہ غیر جلوہ گل رہ گز ر میں خاک نہیں
ہوا ہو ں عشق کی غارت گری سے شر مندہ
سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
٭٭پر وین شاکر :
لمحہ لمحہ وقت کی جھیل میں ڈوب گیا
اب پانی میں اتریں بھی تو پا ئیں کیا 
طو فا ں جب آیا تو جھیل میں کود پڑا
وہ لڑکا جو کشتی کھینے نکلا تھا
کتنی دیر تک اپنا آپ بچا ئے گی
ننھی سی اک لہر کو مو جو ں نے گھیرا
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: