ریاض--------------- مملکت بھر میں بقالوں کی سعودائزیشن کا ہدف ناکام بنانے کیلئے ایک ایشیائی ملک کے باشندوں نے باقاعدہ محاذ قائم کر لیا ۔ یہی لوگ بقالوں پر چھائے ہوئے ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انہوں نے 2010ء کے دوران خلیجی ممالک سے 6.81ارب ڈالر باقاعدہ اپنے ملک بھیجے جبکہ ہنڈی سے بھیجی جانیوالی رقم اس سے مستثنیٰ ہے ۔ 2013ء کے دوران مذکورہ رقم میں 47فیصد اضافہ ہوا ،10ارب ڈالر بھیجے گئے ۔ 2016ء کے دوران 15ارب ڈالر ارسال کئے گئے ۔ وزارت محنت و سماجی فروغ کے عہدیداروں نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے انتہائی رازداری کے ساتھ گفت وشنید شروع کر دی ۔ مملکت میں بقالوں پر غیر ملکیوں کے غلبے کا معاملہ بڑ ا پیچیدہ ہے ۔ ایشیائی باشندے کسی بھی قیمت پر بقالوں پر اپنا غلبہ ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ اس حوالے سے کی جانیوالی کوششوں کی زبردست مزاحمت کا عزم کئے ہوئے ہیں ۔ وزارت محنت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے واٹس ایپ کے ذریعے وزارت کے عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ ایشیائی کارکنان کے غلبے کو توڑنے اور بقالوں کی سعودائزیشن کا ہدف حاصل کرنے کیلئے اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل خصوصی گروپ تشکیل دیا جائے ۔ ایشیائی کارکن مارکیٹ کو اپنے حساب سے چلانے اور مملکت کے نئے قوانین و ضوابط سے نمٹنے کیلئے تنظیمیں ، گروپ اور کلب قائم کئے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ سعودائزیشن کی اسکیموں اور انکے ممکنہ اثرات دریافت کرنے اور ان سے نمٹنے کیلئے انٹرنیٹ پر بھی خصوصی مہم چلائے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ 7بنیادوں کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھ رہے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ سعودیوں کیلئے نمازِ فجر سے لیکر رات 12بجے تک ڈیوٹی دینا محال ہے ۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ دسیوں ہزار سعودیوں کو بقالوں میں ملازم رکھنے کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہو گا ۔ سعودی 16گھنٹے کی ڈیوٹی پر محنتانہ زیادہ لیں گے ۔ تیسرا نقطہ یہ ہے کہ سعودی ہفتے میں 7دن کام نہیں کر سکتے ۔ مہینے میں 30روز ڈیوٹی نہیں دے سکتے، بغیر چھٹی کے سال کے 12مہینے کام نہیں کر سکتے ۔ ایک نقطہ یہ ہے کہ سعودیوں کے پاس بقالے چلانے کیلئے درکار تجربہ نہیں ۔ اس ہنر سے نابلد ہیں ۔ ادھار سامان فروخت کرنے کے چیلنج سے نہیں نمٹ سکیں گے ۔ گاہکوں کو گھروں پر سامان مہیا نہیں کریں گے ۔مملکت بھر میں سپر مارکیٹ اور ہائپر مارکیٹ اتنی تعداد میں نہیں کہ وہ 40ہزار سے زیادہ بقالوں کا خلاء پُر سکیں ۔ ایشیائی تارکین سعودائزیشن کو ناکام بنانے کیلئے اپنی آمدنی کے ایک حصے سے دستبردار ہونے کی تجویز پر بھی غور کر رہے ہیں ۔ تجویز یہ ہے کہ سعودی کودکھانے کیلئے ملازم رکھ لیا جائے اور کام ایشیائی کرتا رہے ۔ ایک حل یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ بقالوں کو تجارتی گوداموں کی شکل دیدی جائے اور اشیائے صرف گاہکوں کو گھروں تک پہنچائی جائیں ۔ آن لائن بقالہ کا رواج متعارف کرایا جائے ۔ ابھی تک سعودی عرب میں تجارتی گودام کی سعودائزیشن نہیں ہوئی ۔ وزارت کے ایک عہدیدار نے توجہ دلائی کہ سعودی عرب میں مختلف شاخوں کے مالک غیر ملکی کمپنیوں سے بھی استفادے کی تجویز چل رہی ہے ۔ ایشیائی تارکین کے سامنے ایک حل یہ بھی ہے کہ اگر اِن پر دبائو زیادہ بڑھا تو ایسی حالت میں بقالے کے مالک ایشیائی غیر ملکی کمپنی کے ماتحت ہو جائیں گے اور قانون کی نظر میں بڑی کمپنی کیلئے کام کریں گے ۔ ایشیائی تارکین بقالوں کی مارکیٹ کو تھوک اور ریٹیل کے کاروبار میں تبدیل کرنے کی تجاویز پر بھی غور کر رہے ہیں ۔