بیروت.... فیس بُک نے 43 برس سے مقتول سمجھے جانے والے لبنانی خاندان کو زندہ ظاہر کرکے ایک اور کمال کردیا۔ لبنان کی خانہ جنگی ختم ہوئے 28 برس ہوچکے ہیں اس کے باوجود اس بھیانک جنگ کے اندوہناک واقعات کے صفحات ابھی تک بند ہونے کے نام نہیں لیتے۔ خانہ جنگی کے دوران سیکڑوں افراد اغوا اور لاپتہ ہوئے۔ عام طور پر اغوا شدگان اور لاپتہ افراد کا خاتمہ مایوس کن نتیجے کی صورت میں ہی دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے تاہم محسن عبدالحسین رضا کے خاندان کا قصہ مختلف نکلا۔ 43 سال سے خیال کیاجارہا تھا کہ 1975ءمیں شامی نژاد لبنانی شہری عزت الحلو سے شادی کرنے والی محسن رضا کی بیٹی سمیرہ اور اس کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی البوشریہ کے علاقے میں عیسائی دستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں۔ فیس بُک سے پتہ چلا کہ یہ پورا خاندان زندہ ہے۔ سابق جج جمال حلو نے الحیاة اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اس کی سالی کا واقعہ ہے ۔ اگر اس طرح کا واقعہ میرے سوا کسی اور کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو میں کبھی بھی اسے سچ نہ مانتا۔ الحلو نے بتایا کہ اس کی شادی سمیرہ کی سگی بہن زینب محسن سے لبنان کی خانہ جنگی کے دوران ہوئی تھی ۔ میری دو سالیاں شادی میں شریک نہیں ہوسکی تھیں۔ خوشدامن سے اس وقت اس کا سبب دریافت کیاگیا تو انہوں نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیا تھا کہ تمہاری ایک سالی سارہ بچپن ہی میں انتقال کر گئی تھی جبکہ سمیرہ خانہ جنگی کے آغاز میں ہلاک ہوگئی تھی۔ حلو بتاتے ہیں کہ 1977ءمیں لبنان میں خانہ جنگی بند ہوئی تو سمیرہ کا خاندان مغربی بیروت سے مشرقی بیروت منتقل ہوگیا۔ وہاں سے البوشریہ کے علاقے چلا گیا۔ اس کے بعد کسی کو یہ نہیں پتہ چلا کہ آیا سمیرہ یا اس کی کوئی اولاد زندہ ہے یا ©" السبت الاسود " سیاہ ہفتے کے نام سے معروف قتل عام کے دوران ماری گئی۔ البوشریہ کے علاقے میں سمیرہ اور اس کے اہل خانہ کی بابت لوگوں سے پوچھا گیا، سب نے یہی جواب دیا کہ یہاں جو بھی لوگ تھے سب کے سب مارے گئے ۔ ان کی ماں 2014ءمیں انتقال کر گئی۔ زینب کے 9 بھائی اور دو بہنیں زندہ رہے۔ 2016ءمیں زینب کے شوہر جمال حلو نے فیس بُک پر اپنا اکاﺅنٹ کھولا۔ الحلو خاندان کے دو نوجوان حسام اور سامی سے فیس بُک پر اس کی دوستی ہوگئی۔ حلو کہتے ہیں کہ میں جب بھی ان میں سے ایک کی تصویر فیس بک پر دیکھتا تو مجھے اپنے بیٹے محمد اور حسام کے درمیان بڑی مماثلت نظر آتی۔ حلو کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی کو میری سرگرمی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو اپنی بہن سمیرہ اور اس کی اولاد پر صبر کرچکی تھی۔ ایک ماہ قبل میرے بیٹے محمد نے شادی کے بعد اپنی تصاویر فیس بک پر جاری کیں تو حسام الحلو نے مبارکباد یتے ہوئے مجھ سے کہا کہ میری ماں لبنانی تھی اور والد شامی تھے۔ انہوں نے لبنان کی شہریت حاصل کرلی تھی ۔ تفصیلات معلوم کرنے پر اس نے اپنی والدین کے نام بتائے۔ نام سن کر میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ میری بیوی زینب برابر بیٹھی تھی۔ وہ اس کیفیت کا سبب دریافت کرنے لگی۔ حاصل کلام یہ کہ ہمارے پورے گھر میں غمی، خوشی، حیرت ، تعجب ، رونے دھونے ، چیخنے چلانے کا عجیب ماحول برپا ہوگیا۔ پتہ چلا کہ 2014ءمیں سمیرہ کا انتقال بھی اپنی ماں کی وفات کے آس پاس ہوگیا تھا۔ وہ زندگی بھر اپنے گھر والوں کی تلاش میں سرگرداں رہی۔ حسام الحلو نے بتایا کہ خوش قسمتی سے عیسائی عسکری دستوں میںشامل ایک دوست نے اسے قتل عام کا واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا اور اسے وہاں سے نکلوا دیا تھا۔ زینب کا ایک بھائی جرمنی میں رہ رہا ہے اور اس کی بہن سمیرہ کا ایک بیٹا بھی جرمنی کے اسی شہر میں ہے جہاں زینب کا بھائی سکونت پذیر ہے۔ دونوں کے گھروں کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے مگر دونوں میں سے کوئی دوسرے سے واقف نہیں۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران 17 ہزار افراد اغواکئے گئے تھے یا لاپتہ ہوگئے تھے اب تک ان کی بابت کچھ نہیں معلوم ہوسکا۔