Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گھوسٹ ہوسٹ‘ اور ’مبینہ فنکار‘

محفل موسیقی جاری تھی لیکن کچھ گڑ بڑ کا احساس بھی ہو رہا تھا، فوٹو: سوشل میڈٰیا
بڑی عجیب شام تھی، جس کا انتظار دن بھر رہا جب وہ شام آئی تو ایسے لمحات لائی جو ہمیشہ ناخوش گواری کے پلے کارڈز لیے یادوں کے جھروکوں سے جھانکتے رہیں گے۔   
شہرِ اقتدار کی ایک سڑک پر مڑتے ہی ہوا نے سرگوشی کی کہ سردی آ گئی ہے۔ ہم اس وقت ایک قومی ادارے میں منعقدہ شامِ غزل میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ میرے لیے پہلا موقع تھا کہ معروف گائیک غلام عباس کو براہِ راست دیکھ سکوں اور مل بھی سکوں۔
خیر ہم پہنچتے ہی سیدھے ہال میں داخل ہوئے جس کے ساتھ ہی احساس ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے، پھر سوچا شاید ہمارا وہم ہو۔ اس وقت ادھ بھرے ہال میں ایک ’قریباً‘ فنکار سماعتوں کی کلاس لے رہے تھے۔
ہم پھر بھی خوش تھے اور وقت گزاری کے لیے ان مبینہ فنکار کے گرد اژدھے کی طرح لپٹی شال پر جگتیں لگانا شروع کر دیں۔ جلد ہی ایک دوشیزہ نمودار ہوئیں اور ڈائس پر آ کر گانے کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہوئے فون پر کسی کو صورت حال سے بھی آگاہ کرتی رہیں۔

محفل کو میوزک کنسرٹ سمجھ کر آنے والے نوجوانوں نے پہلی ہی غزل پر احتجاج شروع کر دیا، فوٹو: انسپلیش

 گانا ختم ہوا تو سب متوجہ ہوئے کہ اب اصل مہمان کو بلایا جائے گا لیکن خاتون میزبان نے ایک سیلفی لی اور گویا ہوئیں ’مزہ آ رہا ہے‘ اور پھر خود ہی جواب دیا ’مجھے بھی‘ اس کے ساتھ ہی چلتی بنیں۔ ایک آدھ مزید پرفارمنس کے بعد پھر نمودار ہوئیں اس جملے کے ساتھ ’موسیقی کا اپنا ہی مزہ ہے‘ اور پھر غائب ہو گئیں۔ جس پر میرے دوستوں نے اسے ’گھوسٹ‘ ہوسٹ کا نام دیا۔
یہ سب جس امید پر برادشت کیا جا رہا تھا آخر وہ اعلان ہو ہی گیا کہ غلام عباس اب سٹیج پرتشریف لائیں گے، وہ آئے، بہت نفاست سے سلام دعا کی۔
پہلی غزل شروع ہوتے ہی سیٹیوں کی آواز گونجنے لگی، پتا چلا کہ کچھ لڑکے اسے کنسرٹ سمجھ کر تشریف لائے ہیں اور چونکہ وہ غزل نائٹ نکل آئی تھی اس لیے پچھلی سیٹوں پر احتجاج کر رہے تھے۔
خیر انتظامیہ نے جلد ہی انہیں سمجھا بجھا کر باہر بھیج دیا اور تعداد مزید کم ہو گئی جس کے بعد تو ہال مچھلی منڈی بنتا دکھائی دیا۔ لوگوں نے طرح طرح کی فرمائشیں شروع کر دیں۔

ایک صاحب برا مان گئے کہ مہدی حسن، غلام علی کے ساتھ عطااللہ کا ذکر کیوں نہیں کیا، فوٹو: سوشل میڈیا

غلام عباس کو جن آوازوں کا سامنا تھا وہ کچھ یوں تھیں۔ ’کالا جوڑا سنا دیں‘ عنایت حسین بھٹی کا کوئی گیت سنا دیں۔ غلام عباس نے فلمی گانے سنانا شروع کر دیے، ماحول بن گیا۔ بہت سے لوگوں کو پہلی بار معلوم ہوا کہ یہ گیت ان کے گائے ہوئے ہیں۔
ایک صاحب نے تو گیتوں کی شاید فہرست ڈاؤن لوڈ کر رکھی تھی۔ جیسے ہی گانا ختم ہوتا پرچی لیے قریب پہنچتے ہی تھما دیتے۔ غلام عباس ہلکا سا مسکراتے اور فوری طور پر کوئی گیت شروع کر دیتے۔
قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا ایک آدھ غزل کا تجربہ کر کے غلام عباس نے سامعین کے ذوق کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اگلی لائن میں بیٹھی ایک خاتون اٹھی اور سٹیج کے پاس جا کر غلام عباس کو پرچی لہراتے ہوئے اشارہ کیا کہ یہ گائیں اور فرمائش پوری کر دیں جس پر گاتے ہوئے غلام عباس کے چہرے پر برہمی کے اثرات ابھرے۔
سٹیج پر ہی کسی نے پرچی تھام کر غلام عباس کو پکڑائی جو انہوں نے بغیر پڑھے ہی ایک طرف رکھ دی۔ یار لوگوں نے بہت کوشش کی کہ ’میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں‘ جیسی کوئی غزل سن لیں لیکن ارد گرد بیٹھے مبینہ سامعین نے آرزو پوری نہ ہونے دی۔ جب محفل خاتمے کی طرف بڑھ رہی تھی تو وہ عجیب واقعات بڑھ گئے جن کا تذکرہ پہلے کیا تھا۔

سامعین عنایت حسین بھٹی کے گانے سنانے کی فرمائش بھی کرتے رہے، فوٹو: سوشل میڈیا

ہوا کچھ یوں کہ ایک گیت ختم کر کے غلام عباس نے مہدی حسن، غلام علی اور دوسرے عظیم ناموں کو خراج تحسین پیش کیا ہی تھا کہ اچانک صف اول سے ایک شخص نے یہ کہتے ہوئے ٹوک دیا ’رکیے آپ یہ زیادتی نہ کریں‘ آپ بھی اچھے گلوکار ہیں اور دوسرے بھی لیکن آپ لالہ عطا اللہ کو کیسے بھول گئے‘ غلام عباس نے انہیں حیرت سے دیکھتے ہوئے عطااللہ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے۔
وہ آخر میں غزل سنانے ہی لگے تھے کہ ایک اور صاحب کھڑے ہو گئے اور فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ’آپ اختتام دھمال پر کریں گے‘کچھ لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کہ یہ اور طرز کی محفل ہے مگر وہ بضد رہے جس پر غلام عباس نے اسی پر جان خلاصی ممکن جانی کہ شکریہ ادا کریں اور سیلفی والی گھوسٹ ہوسٹ پروگرام خاتمے کا اعلان کریں لیکن وہ صاحب قریباً ان کے گریبان تک پہنچ چکے تھے۔
ساتھ کھڑے اول الذکر ’مبینہ‘ گلوکار نے اپنی اژدھے جیسی شال اتار کر غلام عباس کے گلے میں ہار کی طرح لپیٹ دی اور ساتھ کچھ تصویریں بنوائیں تاکہ اگلے روز اخبار میں بھی غلام عباس کی عزت افزائی کا ڈنکا بجا سکیں۔
آخر میں انہوں نے ڈائس پر جانا بھی ضروری سمجھا اور منتظم ادارے (جو کہ ایک فلاحی ادارہ تھا) کے لیے ایک ہزار روپے نقد امداد کا اعلان کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ’وہ موسیقی اور معاشرے کی فلاح کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔‘ 
ہم نے دل ہی دل میں ان کے اعزاز میں تمام حدود پار کیں اور غلام عباس کے لیے دلی ہمدردی کا جذبہ لیے یار لوگوں کے ہمراہ بنا اس عظیم گلوگار کو ملے باہر آ گئے۔
سردی نے آڑے ہاتھوں لیا، فوراً ہی گھر آ کر غم غزل میں سو گئے۔اس رات ہم نے بڑا ہی عجیب سا خواب دیکھا کہ جی فائیو سیکٹر کی ایک شاہراہ پر غلام عباس ٹھنڈ میں اکیلے کھڑے ہیں اور آتے جاتے مسافروں کو کچھ بتا رہے ہیں لیکن کوئی کچھ سنتا ہی نہیں۔ سردی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ عظیم گلوکار آخر تھک ہار کر بے سمت چل پڑے ہیں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: