کورونا سے دنیا میں 5 لاکھ 31 ہزار 789 افراد ہلاک ہو چکے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
انڈیا کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں امریکہ اور برازیل کے بعد تیسرے نمبر پر آگیا ہے جبکہ روس تیسرے سے چوتھے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے انڈین وزارت صحت کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں کورونا کے اب تک 6 لاکھ 97 ہزار 353 کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران انڈیا میں 24 ہزار نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
کورونا وائرس کے کیسز میں روز بہ روز مزید اضافے کی وجہ سے امریکی حکام نے تنبیہ کی ہے کہ ملک کے ہسپتالوں میں جگہ ختم ہو رہی ہے، جبکہ انڈیا میں بھی کیسز میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کو کیسز کو بڑھنے سے روکنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جن کہ تعداد 28 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزارتک پہنچ گئی ہے۔ کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کچھ شہروں کے میئرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان بہت جلدی کردیا جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائرس کی سختی سے انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
انڈیا کو بھی کورونا وائرس کے کیسز سے نمٹنے میں امریکہ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
ملک میں محدود طبی سہولیات کے ساتھ کورونا وائرس کے کیسز میں روز اضافہ ہو رہا ہے اور کئی کیسز کی تو تشخیص بھی نہیں ہو پا رہی۔
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کے گذشتہ سال کے اواخر میں چین میں سامنے آنے کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے کم از کم پانچ لاکھ، 31 ہزار، سات سو 89 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دنیا کے 196 ممالک میں ایک عشاریہ ایک کروڑ افراد کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
امریکہ کے بعد کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں برازیل کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 64 ہزار آٹھ سو 67 اموات ہو چکی ہیں، اس کے بعد برطانیہ، اٹلی اور میکسیکو پر اس وبا کے سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
جرمنی میں لاک ڈاؤن ختم، خوف موجود
دوسری جانب جرمنی میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود بھی ریستورانوں میں کم ہی افراد دیکھنے میں آرہے ہیں۔
برلن کے زین کچن نامی ریستوران کے مالک وو کا کہنا ہے کہ جب سے لاک ڈاؤن ختم کیا گیا ہے ان کے ریستوران میں اب تک صرف معمول کے صارفین میں سے 20 سے 30 فیصد نے آنا شروع کیا ہے۔
جرمنی کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اس وبا سے بہتر انداز میں نمٹا اور اپنا کاروبارِ زندگی شروع کیا۔