Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے گا، امریکی پیشگوئی

قطر پہلا خلیجی ملک تھا جس نے اسرائیل کو دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی۔(فوٹو اے ایف پی)
اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان ہونے والے ابراہم معاہدے پر قطر کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ بالآخر قطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لے آئے گا تاہم اس بارے میں کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا جا سکتا۔
 عرب نیوز کے مطابق گزشتہ روز ہونے والی ٹیلی کانفرنسگ بریفنگ میں ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ فار عرب گلف افیئرز ٹیموتھی لینڈرکنگ نے یاد دلایا کہ قطر وہ پہلا خلیجی ملک تھا جس نے اپنے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیل کو دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی۔
لینڈرکنگ کا کہنا تھا کہ قطر، ترکی سے زیادہ مثبت کردار ادا کر رہا ہے جس نے عوامی سطح پر معمول کی طرف بڑھتے سلسلے کی مذمت کی ہے جبکہ قطری حکام نے حالیہ دنوں میں کہا ہے کہ وہ تب تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے جب تک فلسطین کا معاملہ حل نہیں ہو جاتا۔
’قطر اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہے اور کھلے عام سرگرمیاں جاری ہیں اور یہی کچھ سالوں سے ہو رہا ہے۔ ہم یہاں پر دو ہفتے قبل حماس اور اسرائیل کے ساتھ قطر کی جنگ بندی کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ یہ قطر کی بوتیک سفارتکاری کی ایک اعلیٰ مثال ہے جہاں وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے اپنے لیے بہتر صورت حال پیدا کر سکتا ہے‘
لینڈرکنگ کا کہنا تھا کہ’وہ قطری جو اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارا تجربہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ رابطوں اور سرگرمیوں کے حوالے سے کھل کر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ مثبت تعلقات بنا لیے ہیں‘۔
’ہر ملک اپنے طور پر اپنے معیار کے مطابق تعلقات کو معمول پر لانے کی رفتار کا تعین کرے گا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ جلدی ہو کیونکہ تاخیر کی وجہ سے خطے کے استحکام اور امن کی راہ میں رکاوٹیں پڑ رہی ہیں‘۔
قطر کے سرکاری اور کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے امن معاہدوں پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ پچھلے سال کی نیوز رپورٹس نے قطر کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات پر روشنی ڈالی تھی، جن میں وہ تنظیمیں بھی تھیں جنہوں نے دہشت گردوں حملوں کے لیے فنڈنگ کی اورامریکیوں کی جانیں لیں۔

قطر کے سرکاری اور کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے امن معاہدوں پر تنقید کی گئی ہے۔(فوٹو اے ایف پی)

 لینڈرکنگ نے ان متنازعہ باتوں سے صرف نظر کیا جو دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہیں اور ان کئی مقدمات سے متعلق بھی، جن میں حملوں کی مالی اعانت کے حوالے سے قطر کے شاہی خاندان کے نام بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں اسرائیل میں دس امریکی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔
بوسٹن میں چھ کنٹریکٹرزکی طرف کیے جانے والے مقدمے میں کہا گیا گیا ہے کہ مبینہ طور پر شیخ خالد آل ثانی جو قطر کے حاکم امیر شیخ، شیخ تمیم بن حماد آل ثانی کے بھائی ہیں، انہوں نے امریکہ اور بحرین میں اپنے حریفوں کو مبینہ طور پر مارنے کا حکم دیا تھا۔
 یہ مقدمہ بنیادی طور پر فلوریڈا میں جون 2019 میں قائم ہوا جبکہ جنوری 2020 میں اس کو دوبارہ فائل کیا گیا۔ اس میں شامل افراد کا دعویٰ ہے کہ شیخ خالد نے ایک انڈین کو قتل کیا اور انہیں شیخ کے حریفوں کو قتل نہ کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی اور امریکہ اور بحرین ان کے کار انڈسٹری کے حریفوں کے کمپیوٹر ہیک کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
ایک اور مقدمے جو 10 جون 2020 کو فائل ہوا، اس میں قطر کے شاہی خاندان پر حماس کے ذریعے تشدد کی فنڈنگ کا الزام لگایا گیا ہے جس کے نتیجے میں دس امریکیوں کو ہلاک اور زخمی کیا گیا۔

امریکہ قطر پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کر نے کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا۔(فوٹو روئٹرز)

نیویارک میں دائر ہونے والے ایک مقدمے میں کئی قطری اداروں پر الزامات لگائے گئے ہیں جن میں قطر چیئرٹی (جسے ماضی میں قطر چیریٹیبل سوسائٹی کے نام سے جانا جاتا تھا) اور قطر نیشنل بینک شامل ہیں۔ ان پر بھی امریکیوں اور اسرائیلیوں کے خلاف تشدد کے لیے مالی اعانت کرنے کے الزامات ہیں، ان میں سے بہت سے امریکہ اور اسرائیل کی دوہری شہریت کے حامل ہیں۔
دونوں مقدمات امریکی فیڈرل کورٹ سسٹم میں ہیں اورعوامی مقدمات کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن لینڈرکنگ نے مقدمات کا ذکر کیا اور نہ ہی کسی اور متنازعہ معاملے کا بلکہ قطر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہ لانے کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پرامید ہیں کہ صرف خلیجی ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آ ئیں گے‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے خیال میں قطر کے دہشت گردی کے لیے نرم ہونے کے حوالے سے بہت کچھ ہو چکا ہے۔ یہ دراصل درست نہیں ہے۔ قطر نے دہشت گردی کے خلاف ہمارا بہت ساتھ دیا ہے۔ اس بارے میں میں کہوں گا کہ پابندیوں اور کلیدی اسباب پر توجہ مرکوز کرنے کے باعث گزرے دو سالوں کے دوران امریکہ مزید مضبوط ہوا ہے۔ اس سے قبل شاید قطری سسٹم میں کچھ کمزوریاں تھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آنے والے وقت ہم مزید بہتری کی طرف جائیں گے‘۔

ہ قطر نے اپنی تنقید کو فلسطین تنازعہ کے حل کے ساتھ جوڑے رکھا(فوٹو اے ایف پی)

لینڈرکنگ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قطر نے اپنی تنقید کو فلسطین تنازعہ کے حل کے ساتھ جوڑے رکھا جیسا کہ کئی عرب ملکوں نے کیا۔  
’یقیناً ہم نے نارملائزیشن کے لیے ہونے والی کوششوں کا ردعمل دیکھا ہے۔ ہم بہت پرامید ہیں کہ اس سے بد دل ہونے کے بجائے فلسطینی اس کو ایک موقع کے طور پر لیں گے اور مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ یہی امریکہ کی ترجیح ہے‘۔
پانچ جون 2017 کو گلف کوآپریشن کونسل سمیت سعودی عرب، یو اے ای، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کیے۔ قطر کے بحری اور ہوائی جہازوں پر جی سی سی کی فضائی اور سمندری سپیس استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔
لینڈرکنگ نے دلیل دیتے ہوئے کہا اگر یو اے ای اور بحرین اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل بنا سکتے ہیں تو جی سی سی اور قطر کے درمیان موجود دراڑ بھی ختم ہو سکتی ہے۔

ابراہم معاہدے نے نئی سفارتی اور شراکت کی راہوں کی نشاندہی کر دی۔(فوٹو سوشل میڈیا)

 ’مستقبل روشن دکھائی دے رہا ہے۔ اب بھی ایران کا خطرہ موجود ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں اور خلیجی ممالک کو مل کر خلیج میں پائی جانے والی دراڑ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور دیگر چیلنجز اور مشترکہ خطرات سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے‘۔
لینڈرکنگ نے کہا کہ امریکہ قطر پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کر نے کے لئے دباؤ نہیں ڈالے گا۔
’ہم نے امارات پر اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا، ہم نے بحرین پر بھی دباؤ نہیں ڈالا، وہ اپنے قومی مفاد میں معاہدے کر رہے ہیں‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم پرامید ہیں کہ دوسرے ممالک بھی مستقبل قریب میں آگے بڑھیں گے۔ ابراہم معاہدے نے نئی سفارتی اور شراکت کی راہوں کی نشاندہی کر دی ہے۔

شیئر: