اتوار کو سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر لیبیا سے تمام غیر ملکی افواج کی واپسی پر زور دیا گیا ہے اور ترکی لیبیا میں نئے شامی مرسینریز بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔
لبیا میں ترکی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افواج کی موجودگی نے لبیا میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے عبوری عمل کے دوران ملک کی عبوری حکومت کی کامیابی سے متعلق بحث کو جنم دیا ہے۔
ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ غیر ملکی مداخلت سے لبیا میں اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن کے ملک میں لڑائی کرنے والے حلقوں کو روکنے کے کام میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔
مڈل ایسٹ سینٹر فار رپورٹنگ اینڈ اینالیسز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیتھ فرینٹزمن کا کہنا ہے کہ ترکی کو لبیا میں اپنے کردار سے فائدہ ہے کہ وہ ملک میں کشیدگی اور ممکنہ سیاسی تصفیے کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، 'ترکی نے لبیا میں ڈرونز اور اسلحہ بھیج کر اسلحے پر پابندی کی خلاف ورزی کی۔ اب سوال یہ ہے کہ ترکی کی وجہ سے سیاسی حل نکلتا ہے یا نہیں۔'
ترکی کا کہنا ہے کہ ترک فوج لیبیا کی عبوری حکومت، گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ، کے حمایتی حلقوں کو ملٹری ٹریننگ دے رہی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
گذشتہ سال 23 اکتوبر کو طے پانے والی لیبین جنگ بندی کے معاہدے کے تحت لیبیا میں موجود مرسینریز اور غیر ملکی افواج کو تین مہینوں کے اندر واپس چلے جانا چاہیے تھا۔
تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ ترک فوج لیبیا کی عبوری حکومت، گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ، کے حمایتی حلقوں کو ملٹری ٹریننگ دے رہی ہے۔
اس لیے ترکی نے ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اپنے فوج واپس بلانے سے انکار کردیا ہے۔ حال ہی میں تقریباً 1300 لیبین افواج نے ترکی کی جانب سے کی جانے والی ٹریننگ مکمل کی ہے۔