’میں موجودہ امریکی انتظامیہ اور سابقہ انتظامیہ کے درمیان سعودی عرب کے حوالے سے زیادہ تبدیلی نہیں دیکھ رہا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات گذشتہ 80 برس سے قائم ہے اور یہ عالمی استحکام اور امن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک اہم عنصر ہے۔
’امریکہ کے ساتھ ہمارے سٹریٹیجک تعلقات ہیں، ہمارے معاشی اور مالی مفادات ہیں۔ ہم شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’ہم خطے میں استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں ۔۔۔چاہے یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن لانے کی کوششوں کے حوالے سے ہو، یا یہ لبنان، شام، عراق، ایران اور افغانستان میں امن کے حوالے سے ہو، پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششیں ہو یا سوڈان کے استحکام کے حوالے سے یا یہ لیبیا میں جنگ کے خاتمے یا جی فائیو ممالک کے حوالے سے ہو جو بوکو حرام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘
ایران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میرا ماننا ہے کہ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں ایران واپس جوہری معاہدے کی طرف چلا جائے۔ اور انٹونی بلنکن کے مطابق وہ ایسا جوہری معاہدہ چاہتے ہیں جو ’زیادہ مضبوط اور طویل ہو۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایسی بات ہے جو ہم اس معاہدے کے آغاز سے کہہ رہے ہیں۔
’ہم چاہتے ہیں کہ سنسیٹ پروویژن ہٹا دیا جائے تاکہ ایران یورینیم کی افزودگی غیر معینہ مدت تک نہ کر سکے۔ اور ہم ایک تفصیلی معائنے کا نظام چاہتے ہیں تاکہ ایران میں ضرورت پڑنے پر ہر چیز کی جانچ پڑتال کی جائے۔‘
الجبیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ سعودی آرامکو تنصیبات پر حالیہ حملے ایران سے منسلک ہیں۔ ’تمام میزائل اور ڈرون جو سعودی عرب کی طرف داغے جاتے ہیں، ایران میں بنتے ہیں یا ایران کی جانب سے سپلائے ہوئے ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان میں سے کچھ، جیسا کہ ہم نے کہا، شمال سے آئے تھے، کئی سمندر کی طرف سے آتے ہیں۔‘
ان کے مطابق امریکہ کا حوثیوں کو اپنے بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کے فیصلے کا اسی دن ہونا جس دن یمنی شدت پسندوں نے سعودی عرب میں ابہا میں ہوائی اڈے پر حملہ کیا تھا، ملک کو امداد فراہم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں زیادہ فرق نہیں لائے گا۔
الجبیر کا کہنا تھا ’ہم نے اپنے یورپ میں اپنے دوستوں کو، امریکہ کو اور اقوام متحدہ کے خاص سفیر کو یہ واضح کردیا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان میں طالبان دہشتگردوں تنظیموں کی فہرست میں ہیں، اس سے افغانستان کو ملنے والی امداد نہیں رکتی۔ شام میں داعش دہشتگردوں کی فہرست میں ہیں لیکن اس سے شام کو ملنے والی امداد نہیں رکتی۔ لبنان میں حزب اللہ دہشتگروں کی فہرست میں ہے، اس سے لبنان کو ملنے والی امداد نہیں رکتی۔ سومالیہ میں الشباب دہشتگردوں کی فہرست میں ہے اور اس سے امداد وہاں پہنچنے سے نہیں رکتی۔ بوکو حرام دہشتگردوں کی فہرست میں ہے اور اس سے امداد جی فائیو ساہل ممالک تک پہنچنے سے نہیں رکتی۔‘
انہوں نے کہا ’حوثی امداد چوری کرتے ہیں۔ اور جنگ کی مالی اعانت کے لیے وہ اسے فروخت کرتے ہیں۔ وہ نو سے 11 برس کے نوجوان لڑکوں کو بھرتی کرتے ہیں، اور میدان جنگ میں لاتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
عادل الجبیر نے بتایا کہ ’خواہ سعودی عرب میں ہو یا یمن میں حوثی بلا تفریق شہریوں کے خلاف بیلسٹک میزائل اور ڈرون لانچ کرتے ہیں، جہاں انہوں نے مرکزی بینک کو بھی لوٹا۔ انہوں نے پر امن حل کے حصول کے لیے ہر کوشش کو مسترد کیا ہے۔‘
الجبیر نے اس بات پر زور دیا کہ کچھ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان معملات ’معمول پر آنے‘ کے باوجود، مملکت کی پوزیشن نہیں بدلی ہے۔
’عرب امن انی شییٹیو کے تحت ہم ایک دو قومی حل چاہتے ہیں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادیں جہاں ہمارے پاس ایک فلسطینی ریاست ہو اور جہاں ہم امن اور حفاظت کے ساتھ رہ رہے ہوں۔ یہ ہماری پوزیشن ہو۔‘