Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راکٹ اور فضائی حملوں کے بعد اسرائیلی فوجی غزہ کی سرحد پر جمع ہونا شروع

اسرائیلی فوجیوں نے جمعرات کو غزہ کی سرحد پر جمع ہونا شروع کر دیا ہے جبکہ فلسطینی عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ شدید کشیدگی بین الاقوامی تشویش کا باعث بنی ہے اور اس نے اسرائیل میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز کر دیا ہے۔
غزہ کے حکام صحت کے مطابق پیر سے شروع ہونے والے تشدد سے غزہ میں اب تک 83 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال نے ہسپتالوں پر بوجھ بڑھا دیا ہے جو پہلے ہی کورونا وبا کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔
اسرائیلی یہودیوں اور ملک کی عرب اقلیت کے درمیان کئی دنوں سے جاری تشدد میں راتوں رات اضافہ ہو گیا ہے۔ یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا جبکہ بعض کمیونٹیز کی گلیوں میں بھی لڑائی ہوئی۔
اس تشویش کے ساتھ کہ گذشتہ پیر کو بھڑک اٹھنے والا تشدد قابو سے باہر ہو سکتا ہے، امریکہ نے اپنے خصوصی مندوب ھادی عمرو کو خطے میں بھیجا ہے۔ لیکن سالوں سے بدترین دشمنیوں کو ختم کرنے کی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
غزہ پر فضائی حملوں کے دوبارہ آغاز میں اسرائیل نے ایک چھ منزلہ عمارت پر حملہ کیا جو اس کے مطابق حماس کی تھی۔
اس حوالے سے 20 سالہ تعمیراتی ورکر اسد کرم کا کہنا ہے کہ ’ہم اسرائیل اور کورونا کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم دو دشمنوں کے درمیان ہیں۔‘
جبکہ اسرائیلی پولیس کے مطابق فلسطینیوں کی جانب سے تازہ راکٹ حملوں میں ایک راکٹ دارالحکومت تل ابیب میں ایک عمارت کے پاس جا کر پھٹا، جس سے پانچ اسرائیلی شہری زخمی ہو گئے۔ جنوبی اسرائیل کے شہروں میں سائرن بجتے رہے اور ہزاروں افراد پناہ کے لیے بھاگتے رہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اسرائیل میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل میں صورتحال کے حوالے سے تل ابیب کے ایک 26 سالہ طالب علم مارگو اونووچ کا کہنا ہے کہ ’سارا اسرائیل ہی حملے کی زد میں ہے۔ یہ ایک بہت خوفناک صورتحال ہے۔‘
جبکہ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے غزہ کی سرحد کے ساتھ فوج تیار کر لی ہے اور وہ زمینی کارروائیوں کی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔‘
غزہ میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ شب ہونے والی متعدد افراد کی اموات کی تحقیقات کر رہے ہیں جن کے بارے میں شک ہے کہ وہ ذہریلی گیس میں سانس لینے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نمونوں کی جانچ کی جا رہی ہے اور ابھی کوئی حتمی نتیجہ برآمد ہونا باقی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انہیں امید ہے کہ لڑائی جلد ہی ختم ہو جائے گی۔‘
جبکہ ایک برطانوی وزیر نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا ہے کہ ‘وہ اس تصادم سے ایک قدم پیچھے ہٹیں۔‘
اس سے قبل فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ 

گذشتہ سات برسوں میں یہ اب تک کشیدہ ترین حالات ہیں۔ اس کشیدگی کا آغاز بیت المقدس میں واقع مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات سے ہوا تھا: فوٹو روئٹرز

عرب نیوز کے مطابق بدھ کو عمر رسیدہ فلسطینی رہنما نے کہا کہ وہ اسرائیلی فورسز اور آبادکاروں کو یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
محمود عباس کا یہ بیان صدارتی ہیڈکوارٹر میں ’فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت‘ کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس کے آغاز میں سامنے آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’غزہ کی پٹی سمیت ہر جگہ ہمارے لوگوں کے خلاف قابض فورسز کی جاری جارحیت نے تمام حدود سے تجاوز کیا اور تمام بین الاقوامی اصولوں اور کنونشنز کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔‘

غزہ کے حکام صحت کے مطابق پیر سے شروع ہونے والے تشدد سے غزہ میں اب تک 83 افراد ہلاک ہو چکے ہیں: فوٹو روئٹرز

گذشتہ سات برسوں میں یہ اب تک کشیدہ ترین حالات ہیں۔ اس کشیدگی کا آغاز بیت المقدس میں واقع مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات سے ہوا تھا، جو مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ 
عالمی طاقتیں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حالیہ بحران پر ایک اور ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، اقوام متحدہ کے ایلچی پرائے مشرق وسطیٰ ٹو وینسلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ ’ہم تیزی سے ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘ 
 برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی دونوں فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کی چیف پراسیکیوٹر فاتو بینسوڈا نے تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'جرائم' شاید کیے جاچکے ہیں۔

شیئر: