Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی وزیرخارجہ کا دورۂ انڈیا ’بڑھتی ہوئی سٹریٹجک شراکت داری‘ کی علامت

سعودی عرب وزیرخارجہ نے اپنے انڈیا کے دورے کے دوران کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کی پیش کش بھی کی (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے پیر کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کی اور اپنے دو روزہ دورے کا اختتام کیا جسے ماہرین نے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق گو کہ عہدیدار اس ملاقات کے ایجنڈے کے بارے میں خاموش رہے اور وزارت خارجہ نے بھی تفصیلات جاری نہیں کیں لیکن سعودی عہدیدار کا دورہ گذشتہ برس کے اوائل میں کورونا پھیلنے کے آغاز کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔
نئی دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالسز کے ڈاکٹر مدثر قمر نے کہا کہ یہ دورہ ’وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں پر قابو پانے کے دونوں ممالک کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔‘
مدثر قمر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ حقیقت کہ سعودی وزیر کا انڈیا کے دورے پر آنا دو طرفہ تعلقات کے لحاظ سے اہم ہے۔سرمایہ کاری سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات کا اہم ستون اور ریڑھ کی ہڈی ہے۔‘
انہوں نے پچھلے پانچ سے چھ برسوں کے اعدادوشمار کا حوالہ دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا میں سعودی سرمایہ کاری 2014 میں 50 ملین ڈالر تھی اور آج تقریباً تین ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
’اگرچہ یہ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ہدف تک نہیں پہنچ سکا ہے جسے دونوں ممالک نے 2019 تک حاصل کرنے کا عزم کیا تھا لیکن اب اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘
دیگر مبصرین کے نزدیک یہ سعودی عرب میں ’اہم اور سٹریٹجک سرمایہ کاری‘ کے ساتھ انڈیا کے کردار کو مضبوط کرے گا۔
اردن اور لیبیا میں انڈیا کے سابق سفیر انیل تریگنایت نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’سعودی وزیر خارجہ کا دورہ بہت بروقت اور پورے منظر نامے میں ہماری بڑھتی ہوئی سٹریٹجک شراکت داری کا تسلسل ہے۔‘
تریگنایت نے کہا کہ سمندری اور سائبر سکیورٹی، تکنیکی تعاون اور گرین سیکٹرز ’قریبی تعاون کے نئے ایریاز‘ ہوں گے۔
’عالمی اقتصادی مرکز مغرب سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور سعودی عرب وہ ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی کا پہلو سرمایہ کاری ہے۔ یہ ایک سٹریٹجک قدم ہے کہ ریاض انڈیا میں سرمایہ کاری کا انتخاب کر رہا ہے۔‘
ایک بہت اہم چیز جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں وہ ہے انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی سکیورٹی اور دفاعی شراکت داری۔ 2008 کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سلامتی اور دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے-‘
واضح رہے کہ اتوار کو شہزادہ فیصل بن فرحان نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی۔ شنکر نے اسے’خوش گوار اور نتیجہ خیز ملاقات‘ قرار دیا تھا۔
انڈین وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں عہدیداروں نے اکتوبر 2019 میں مودی کے دورہ سعودی عرب کے دوران دستخط کیے گئے سٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا اور وبائی امراض سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے’مل کر کام کرنے‘ پر اتفاق کیا۔
بعدازاں مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ فیصل نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ’ہمارے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘
انہوں نے نئی دہلی میں اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ یہ ایک بڑی ترجیح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ’اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تعلقات کی رفتار اسی طرح جاری رہے۔‘
سنہ 2019 میں سعودی عرب نے انڈیا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ شہزادہ فیصل نے کہا کہ وبا کی وجہ سے درپیش ’چیلنجز‘ کے باوجود انڈیا سعودی عرب کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے اعدادوشمار کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ انڈین شہری سعودی میں رہتے اور کام کرتے ہیں، تاہم کووڈ 19 نے ہزاروں افراد کو بے روزگار کر دیا اور ان کی اکثریت سفری پابندیوں کی وجہ سے کام پر واپس آنے سے قاصر ہے۔
جے شنکر نے سعودی عرب کے لیے براہ راست پروازوں کی جلد بحالی پر زور دیا جبکہ دونوں ممالک نے کووڈ 19 سے متعلق تمام چیلنجز پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘
اپریل اور مئی میں سعودی عرب نے انڈیا کو 140 ٹن سے زیادہ طبی آکسیجن فراہم کی تاکہ کورونا وائرس کی دوسری مہلک لہر (جس میں چار لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے تھے) میں انڈیا کی مدد کی جا سکے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کی پیش کش

خیال رہے کہ سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے انڈیا کے دورے کے دوران اخبار ’دی ہندو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کی پیش کش بھی کی تھی۔
انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’جب بھی ہو سکا ہم ہمیشہ اپنے اچھے فورمز فراہم کریں گے لیکن اس کے لیے درست وقت کا تعین انڈیا اور پاکستان پر منحصر ہے۔‘
’ہم اس بات کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے راستے پر توجہ دی جائے تاکہ ان مسائل کو اس طرح حل کیا جا سکے جس سے ان ایشوز کو مستقل طور پر حل کیا جا سکے۔‘

شیئر: