سیاسی مخالفین کو پھانسی دینے کا الزام، ایرانی افسر کی سویڈش عدالت میں پہلی پیشی
سیاسی مخالفین کو پھانسی دینے کا الزام، ایرانی افسر کی سویڈش عدالت میں پہلی پیشی
منگل 23 نومبر 2021 12:17
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں تقریباً پانچ ہزار قیدیوں کو ہلاک کیا گیا۔ (فائل فوٹو: ہیومن رائٹس واچ)
ایران کے ایک سابق جیل افسر، جن پر 1988 میں سیاسی مخالفین کو پھانسی دینے کا الزام ہے، پہلی بار سویڈن میں ہونے والی تاریخی عدالتی کارروائی میں بیان ریکارڈ کرائیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 60 سالہ حامد نوری کا کیس اگست سے سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں زیر سماعت ہے۔
ان پر قتل اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات ہیں۔
یہ الزامات 30 جولائی تا 16 اگست 1988 تک ہونے والے واقعات کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں، جب حامد نوری تہران کے قریب کاراج میں گوہرداشت جیل کے نائب پراسیکیوٹر کے مبینہ طور پر اسسٹنٹ تھے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران بھر میں مبینہ طور پر سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے احکامات پر تقریباً پانچ ہزار قیدیوں کو ہلاک کیا گیا۔
ان افراد کو ان حملوں کے جواب میں ہلاک کیا گیا تھا جو پیپلز مجاہدین آف ایران نے 80-1988 میں ایران اور عراق کی جنگ کے آخر میں کیے تھے۔
حامد نوری پر براہ راست کسی ہلاکت کا الزام نہیں ہے۔ تاہم استغاثہ کا الزام ہے کہ انہوں نے سزائے موت دینے، قدیوں کو پھانسی کے چیمبر میں لانے اور استغاثہ کو قیدیوں کے نام اکٹھے کرنے میں مبینہ طور پر مدد کی ہے۔
دوسری جانب حامد نوری نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
سویڈن کی عدالت نے پہلے ہی کچھ گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر رکھے ہیں، جن میں پیپلز مجاہدین آف ایران کے ارکان اور کچھ سابق ارکان شامل ہیں۔
رضا فلاحی نام کے ایک گواہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب میں ڈیتھ کوریڈور میں تھا، مجھے انہیں دیکھنے کا موقع ملا اور میں نے دیکھا کہ جب بھی وہ کسی کا نام لیتے تھے وہ انہیں پھانسی کے چیمبر تک لے کر جاتے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’وہ 45 منٹ بعد وہ واپس آتے تھے اور دوبارہ ایک بار پھر وہی کہانی دوہرائی جاتی تھی۔‘
واضح رہے کہ رضا فلاحی 1981 سے 1991 تک جیل میں تھے۔ وہ 1988 میں گوہرداشت جیل میں رہے۔ ان کی عمر اب 61 برس ہے اور وہ برطانیہ میں رہتے ہیں۔
سویڈن کے عالمی قانون کا مطلب ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں کسی شخص کا قتل اور جنگی جرم جیسے سنگین جرائم کے لیے ٹرائل کیا جا سکتا ہے، چاہے مجرم کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور قانونی ماہرین نے اس ٹرائل کو تاریخی قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی سویڈن کی کارکن ماجا ابرگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ پہلی بار ہے کہ کسی ایسے شخص، جس پر اس اس قدر بڑے الزامات ہیں، ان کو عدالت میں لایا جا رہا ہے، یہ ایک مثالی قدم ہے۔‘