Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیزے سے لگایا جانے والا گھاؤ اور زبان سے لگنے والا زخم

حرف، لفظ، فقرہ، جُملہ اور کلمہ سب عربی الاصل ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
لفظ جو بھی زبان سے نکلا
تیر گویا کمان سے نکلا
سہل ممتنع میں کہا گیا شعر مشفق و مہربان استاد جناب اطہر علی ہاشمی کا ہے۔ پیشِ نظر شعر میں باالفاظ دیگر اس بات کی یاد دھانی ہے کہ تلوار کا گھاؤ بھرجاتا ہے مگر جو زخم لفظوں کے نشتر لگاتے ہیں وہ نہیں بھرپاتے۔ سرِدست اس شعر کی رعایت سے ’لفظ‘ کی گرہ کُشائی مطلوب ہے۔
حرف، لفظ، فقرہ، جُملہ اور کلمہ سب عربی الاصل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے لفظی اور اصطلاحی معنی میں دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔
اصطلاح میں انسان کے منہ سے نکلنے والی آوازوں کو تحریر میں لانے کے لیے مقرر علامات اور نشانات میں سے ہر ایک کو ’حرف‘ کہا جاتا ہے۔ اس ’حرف‘ کی جمع ’احرف‘ اور’حُرُوف‘ جب کہ ان کا مجموعہ ’حروفِ تہجی‘ کہلاتا ہے۔
لفظ ’حرف‘ موقع و محل کے اعتبار سے معنی و مفہوم کے کئی رنگ بدلتا ہے۔ کہیں یہ ’لفظ‘ کا مترادف بن جاتا ہے اور کہیں یہ ’بات، سخن اور کلام‘ کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ کہیں ’حرف‘ کے معنی میں ’شک و شبہ‘ داخل ہے اور کہیں اس کے مفہوم میں ’نقص، عیب، اعتراض اور نکتہ چینی‘ شامل ہے۔ ’حرفُ کہیں ’حیف و حسرت‘ کے معنی دیتا ہے اور کہیں ’زبان و لہجہ‘ کے مفہوم میں برتا جاتا ہے۔
بیان کردہ معانی و مفاہیم کے اثبات میں استاذہ کے اشعار بطور سند پیش کیے جاسکتے ہیں تاہم ’تنگیِ داماں‘ کے سبب ان سے گریز کرتے اور ’حرف‘ کے لفظی معنی سے بحث کرتے ہیں۔
علامہ راغب اصفہانی کے مطابق ’حرف‘ کے معنی کسی چیز کے کنارے کے ہیں۔ اسی لیے پہاڑ، کَشتی اور تلوار کا کنارہ ’حرف‘ کہلاتا ہے۔ اصطلاح میں ’الحروف العوامل‘ ان حروف کو کہا جاتا ہے جو کلمات کے اطراف میں واقع ہوتے ہیں اور ان کو باہم مرتبط کرتے ہیں۔
اب ’حرف‘ بمعنی کنارہ ذہن میں رکھیں اور لفظ ’انحراف‘ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کسی چیز سے کنارہ کرنا 'انحراف' اور کنارہ کش ’منحرف‘ کیوں کہلاتا ہے۔
’حرف‘ سے مشتق الفاظ میں ایک ’تحریف‘ بھی ہے، اس کے لفظی معنی کسی چیز کو ایک جانب مائل کرنے کے ہیں، جب کہ اصطلاح میں کسی متن میں حرف، الفاظ یا بیان وغیرہ کا بدل دینا ’تحریف‘ کہلاتا ہے، تبدیلی کے اس عمل کے لیے ’تحریف الکلام‘ کی ترکیب بھی استعمال ہوتی ہے۔

تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے لیکن لفظوں کے زخم نہیں بھر پاتے۔ فوٹو: ان سپلیش

آپ یقیناً لفظ ’حرفت‘ سے واقف ہوں گے۔ اس کو بھی ’حرف‘ سے نسبت ہے۔ چوں کہ حرف بمعنی ’تلوار کا کنارہ‘ سے تیزی کا مفہوم پیدا ہوا، جس نے مشّاقی اور مہارت کا رُخ اختیار کیا۔ نتیجتاً ہنر، پیشہ اور دستکاری کو 'حرفت' کہا گیا.
عام طور پر’حرفت‘ کا لفظ ’صنعت‘ کے ساتھ بطور تاکید آتا اور بصورت ’صنعت و حرفت‘ برتا جاتا ہے۔ اس بات کو لسان العصر اکبر الہٰ آبادی کے شعر میں دیکھا جاسکتا ہے، جو کام کی بات کہہ گئے ہیں:
کچھ صنعت و حرفت پہ بھی لازم ہے توجہ
آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک
اب ’لفظ‘ کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں منہ سے نکلنے والی آواز اور زبان سے نکلنے والا کلمہ یا فقرہ ’لفظ‘ کی تعریف میں داخل ہے۔ یوں یہ لفظ سخن و گفتار کا مترادف قرار پاتا ہے۔
جہاں تک ’لفظ‘ کے لفظی معنی کی بات ہے، تو معروف اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مطابق لغوی اعتبار سے اس کا مفہوم پھینکنے اور گرا دینے کا ہے، چوں کہ لفظ انسان کے منہ سے گرتا ہے اس لیے اسے ’لفظ‘ کہتے ہیں۔
’لفظ‘ بمعنی پھینکنا سے ہی ایک لفظ 'لَافِظَةُ' ہے، اس کا اطلاق ہر اُس شے پر ہوتا ہے، جس میں ’پھینکنا‘ کا عمل پایا جاتا ہو۔ مثلاً سمندر اس لیے 'لَافِظَةُ' کہلاتا ہے کہ وہ اپنے اندر کی چیزوں کو ساحل پر پھینکتا ہے۔ چکی اس لیے 'لَافِظَةُ' کہلاتی ہے کہ وہ آٹا پیس کر باہر پھینکتی ہے۔ پھر دنیا کو 'لَافِظَةُ' کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنی مخلوقات کو آخرت کی طرف پھینک رہی ہے۔
چوں کہ لفظ کا تعلق زبان و بیان سے بھی ہے اس لیے عربی زبان میں بطور اسم ’لفظ‘ کا استعمال لغت و معجم (فرہنگ) کے مترادف کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ اب ’لفظ‘ کی رعایت سے 'احمد شناس' کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
رفتہ رفتہ لفظ گونگے ہو گئے
اور گہری ہو گئیں خاموشیاں
اب ’فِقرہ‘ کا بات ہوجائے۔ اردو میں اس کے عام معنی ’عبارت کا ٹکڑا یا جملے کا حصہ‘ ہے۔ تاہم اردو کے برخلاف عربی میں ’فقرہ‘ کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی میں کلام کا ایک جملہ، مضمون کا ایک حصہ، شعر کا ایک مصرعہ، پیرا گراف اور قانون کی دفعہ کا ایک مستقل مضمون ’فقرہ‘ کہلاتا ہے۔

لغوی اعتبار سے ہرچیز کا مجموعہ ’جملہ‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس ’فقرہ‘ کی اصل ’فقر‘ ہے۔ اور اس فقر کے معنی میں ’محتاجی‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ دراصل عربی میں ریڑھ کی ہڈی کو 'فَقَارَةُ' کہتے ہیں، جب کہ ہر ایک مہرہ 'فقرہ' کہلاتا ہے۔
یہاں پہنچ کر دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اول یہ کہ اگر ’فقر‘ ریڑھ کی ہڈی سے متعلق ہے تو اس کا ’فقیر‘ سے کیا تعلق ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ ’فقرہ‘ لفظ ’جملہ‘ کے معنی کیونکر اختیار کر گیا ہے۔
عرض ہے کہ یوں تو فقیر کے معنی و مترادفات میں گدا، مفلس، محتاج اور غریب شامل ہیں، اور ان میں سے ہر ایک صورت احتیاج اور ضرورت کی نمائندہ ہے، تاہم ’الفقیر‘ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو۔
ظاہر ہے کہ واقعتاً کمر ٹوٹ جائے یا مشکلات کا پہاڑ مجازاً کمر توڑ دے، ہر دو صورتوں میں ’فقیر‘ محتاج ہو جاتا ہے۔
جہاں تک فقرے کو جملے کے معنی میں استعمال کرنے کی بات ہے تو جس طرح ’فقارہ‘ یعنی ریڑھ کی ہڈی ایک کُل اور ’فقرہ‘ یعنی مہرہ اس کا جُز ہے، ایسے ہی فقرہ کو جُز کے معنی میں برتے ہوئے  تحریر یا تقریر کے ٹکڑے یا حصے کو 'فقرہ' کہا گیا ہے۔
اب کچھ ذکرلفظ 'جملہ' کا ہوجائے۔ لغوی اعتبار سے ہرچیز کا مجموعہ ’جملہ‘ کہلاتا ہے، پھر اسی رعایت سے کُل، سارا اور تَھوک (ہول سیل) بھی اس کے معنی میں داخل ہے۔ جب کہ ادبی اصطلاح میں ’جملہ‘ فقرہ کے مترادف کے طور پر برتا جاتا ہے۔
جہاں تک ’کلمہ‘ کی بات ہے تو زبان سے ادا ہونے والا ہر بامعنی لفظ ’کلمہ‘ کہلاتا ہے، جس کے مترادفات میں بول، قول اور فقرہ شامل ہے۔
عربی میں ’کلم‘ اور ’کلمہ‘ کے ایک معنی زخمی کر دینے کے بھی ہیں۔ انسان جب زبان سے کوئی سخت بات نکالتا ہے، یا غلط لفظ بولتا ہے تو نامناسب الفاظ سننے والے کے احساسات مجروح ہوتے ہیں، اور ایسے مجروح ہوتے ہیں کہ اس کا کوئی مداوا نہیں ہوتا۔ ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
نیزے سے لگایا جانے والا گھاؤ تو مندمل ہوسکتا ہے، لیکن زبان سے لگایا جانے والا زخم  نہیں بھرتا۔

شیئر: