روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں
شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر
عرفان صدیقی کا یہ شعر نہیں شکوہ ہے وقت کے بدلنے اور جوانی دیوانی کے ڈھلنے کا۔ مرثیہ ہے اُن لب و رخسار کا جو کبھی بہار آشنا تھے مگر اب خزاں رسیدہ ہیں۔ گردشِ ایام کے ستائے شاید ایسے ہی کسی چہرے کو دیکھ کر شاعر چیخ اٹھا ہے ’اب تو پہچانے نہیں جاتے ہیں پہچانے ہوئے‘۔
اب بات ہوجائے اُس ’روپ‘ کی جس کی دھوپ نے ایک عالم کی نگاہوں کو خیرہ کر رکھا ہے۔ لفظ ’روپ‘ کی اصل سنسکرت کا ’روپا/रूप‘ ہے، جب کہ ’روپ‘ اس کا اردو و ہندی تلفظ ہے۔
سنسکرت میں ’روپ / روپا‘ کے دسیوں معنی میں سے ایک ’حُسن‘ بھی ہے، یوں یہ ’روپ‘ جس پر آئے وہ ’روپیکا‘ کہلاتا ہے، یوں ’روپ‘ اگر ’حُسن‘ ہے تو ’روپیکا‘ کے معنی ’حسین‘ کے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں‘Node ID: 509171
-
طائف، حجاز کا پہلا شہر جس کے گرد دیوار بنیNode ID: 513456
-
’چور جب کوتوال ہو جائیں‘Node ID: 541081
یہ روپ جب ’حُسنِ بے مثال‘ ہوجاتا ہے، تب ’روپ اَنُوپ‘ کہلاتا ہے۔ دیکھیں ’فاروق انجینئر‘ کیا کہہ رہے ہیں:
آنکھوں کو یوں بھا گیا اُس کا روپ اَنُوپ
سردی میں اچھی لگے جیسے کچی دھوپ
اسی ’روپ‘ سے ’کام روپ‘ بھی ہے، جس کے معنی ’حسین و جمیل‘ کے ہیں۔ آپ ’روپ‘ کو اردو میں رائج بہت سی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں مثلاً حُلیہ اور شکل و صورت کو ’رُوپ سَرُوپ‘ کہا جاتا ہے، ایسے ہی ایک ترکیب ’بہروپ‘ ہے، اور اس کے معنی ’بہت سے روپ‘ کے ہیں۔ پھر اسی ’بہروپ‘ سے لفظ ’بہروپیا‘ ہے جو بھیس بدل بدل کر آنے اور دھوکا دے جانے والے کو کہتے ہیں۔ یقین نہ آئے توعابد ادیب‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
بہروپیا ہے کوئی، پِھرے ہے نگر نگر
قاتل کا روپ دھارے، کبھی چارہ ساز کا
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خاص ہندوستان کے تناظر میں خوبصورتی کا بنیادی تصور ’گوری رنگت‘ سے جُڑا ہے۔ جب کہ اس تصور کی جڑیں نسلی برتری میں پیوست ہیں۔ وسط ایشیاء سے ہند کے زرخیز میدانوں کا رُخ کرنے والے خوش شکل و خوبرو آریاؤں نے اپنی نسلی برتری اور مذہبی سیادت قائم کرنے کے لیے جو طبقاتی نظام متعارف کروایا اُسے ’ورن / वर्ण‘ کا نام دیا۔

سنسکرت میں ’ورن‘ کے ایک معنی سماجی طبقہ، دوسرے معنی ذات اور تیسرے معنی ’رنگ‘ کے ہیں۔ اب ’رنگ‘ کے ساتھ لفظ ’ہندو‘ پرغور کریں کہ فارسی میں ’ہندو‘ کے معنی ’کالا / سیاہ‘ کے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فارسی کے سب سے بڑے غزل گو شاعر حافظ شیرازی نے محبوب کے ’سیاہ تِل‘ کو ’خالِ ہندوش‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔
سنسکرت میں چاندی کو ’روپیا /रौप्य‘ کہتے ہیں۔ چاندی کو یہ نام اُس کی سفیدی کے سبب ملا ہے۔ جب کہ چاندی کی طرح سفید یا چاندی سے بنی چیز کو ’روپہلا اور روپہلی‘ کہتے ہیں۔
یہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’روپیا‘ تو پاکستان اور ہندوستان کی کرنسی کا نام ہے۔ توعرض ہے کہ سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک ہندوستان میں چاندی کے سکّے رائج تھے، جو اپنی اصل کی نسبت سے ’روپیا‘ کہلاتے تھے۔ تاہم بعد میں جب سونے چاندی کے سکّوں کا چلن باقی نہ رہا تو بھی رائج ہونے والی کاغذی نوٹوں اور دھاتی سکّوں کو ’روپیا‘ ہی کہا گیا۔
اب اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’چاندی‘ کی رعایت سے قتیل شفائی کا مشہور شعر ملاحظہ کریں:
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ شعر بالا میں وارد لفظ ’دَھنوان‘ کا جُزاول ’دَھن‘ وہی ہے جسے ہم ’دَھن دولت‘ اور ’تن، من، دَھن‘ کی سی تراکیب میں برتے ہیں، جب کہ جُز ثانی ’وان‘ کو ’والا اور صاحب‘ کے معنی میں ’کوچوان‘ اور ’بھگوان‘ کی کسی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس ’وان‘ کی دوسری صورت ’بان‘ ہے، جس کا نظارہ ’باغبان‘ و ’مہربان‘ میں کیا جاسکتا ہے۔
