Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی اداکارہ کی سکارف کے بغیر تصویر، ’اپنے ملک کے لیے لڑوں گی‘

ترانہ علیدوستی ایران میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ (فوٹو: شٹرسٹاک)
ایران کی ایک ممتاز اداکارہ نے بدھ کو سوشل میڈیا پر اپنی ایک ایسی تصویر شیئر کی ہے جس میں وہ سکارف کے بغیر دکھائی دے رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اداکارہ ترانہ علیدوستی کی جانب سے یہ اقدام مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے کئی ہفتے بعد مزاحمت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
اس واقعے کے بعد پھوٹنے والی احتجاج کی لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ستمبر کے وسط میں پولیس حراست میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت واقع ہوئی تھی۔
ترانہ علیدوستی کا شمار ایران کی مشہور اداکاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے عوامی سطح پر احتجاجی تحریک کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترانہ علیدوستیی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر سکارف کے بغیر پلے کارڈ اٹھائے ایک تصویر پوسٹ کی جس پر کرد زبان کے الفاظ میں ’خاتون، زندگی اور آزادی‘ لکھا ہوا تھا۔
ترانہ علیدوستی ہدایت کار اصغر فرہادی کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’دی سیلزمین‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔
کچھ دن پہلے انہوں نے انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے ملک میں ہی رہیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ان خاندانوں کی مدد کریں گی جن کے رشتے دار احتجاج کے دوران ہلاک یا گرفتار ہوئے۔
38 سالہ کی اداکارہ نے کہا تھا کہ ان کا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ انہوں نے غیرملکی پاسپورٹ یا رہائش کے اجازت نامے کی بھی تردید کی۔
میں یہاں مقیم رہوں گی میں قیدیوں کے خاندانوں اور احتجاج میں مارے جانے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہوں گی اور ان کی آواز بنوں گی۔

ترانہ علیدوستی نے ہدایت کار اصغر فرہادی کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’دی سیلزمین‘ میں کام کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’میں اپنے ملک کے لیے لڑوں گی۔ میں اپنے حقوق کے لیے کسی بھی قسم کی قیمت ادا کروں گی اور سب سے اہم یہ کہ مجھے اس پر یقین ہے جو ہم اکھٹے مل کر کر رہے ہیں۔
ترانہ علیدوستی نوجوانی ہی سے ایرانی سینما کا حصہ ہیں، انہوں نے حال ہی میں ہدایت کار سعید روستائی کی مشہور فلم ’لیلاز برادر‘ میں کام کیا ہے جو اس سال کے کانز فلم فیسٹیول میں بھی دکھائی گئی تھی۔
وہ ایران میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر جانی جاتی ہیں۔

شیئر: