یوٹیوبر کا دُلہن کو گدھے کے بچے کا تحفہ، ’کیا کیا دیکھنا پڑ رہا ہے‘
اذلان شاہ کی جانب سے اہلیہ وریشہ کو گدھے کا بچہ تحفے میں دیے جانے پر صارفین مختلف تبصرے کر رہے ہیں (فوٹو: اسلام آباد اپ ڈیٹس)
پاکستان کے ایک یوٹیوبر نے شادی کے موقع پر اپنی دلہن کو گدھے کا بچہ تحفے کے طور پر پیش کیا ہے جس میں سوشل میڈیا صارفین خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔
اسلام آباد اپ ڈیٹس نامی ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کی گئی تصویروں کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ’یوٹیوبر اذلان شاہ نے اپنی اہلیہ وریشہ جاوید خان کو شادی کے موقع پر گدھے کے بچے کا تحفہ دیا ہے۔‘
اس پوسٹ کو ٹوئٹر صارفین کی جانب سے کافی دلچسپی سے دیکھا گیا اور اس پر مختلف قسم کے تبصرے ہو رہے ہیں، جن میں کچھ اقدام پر ہلکے پھلکے انداز میں مزاح کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے محض ’جانور کا ایک بچہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
پوسٹ پر ہونے والے پہلے تبصرے میں بادہ کش نامی صارف نے پنجابی کا وہ محاورا استعمال کیا ہے جو کسی حیرت ظاہر کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’لو جی کر لو گل‘
ساتھ ہی انہوں نے قہقہے کا ایموجی بھی لگایا ہے۔
اس پر زینب مالک نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ بھی باقی جانوروں کی طرح جانور ہے، کیا مسئلہ ہے، اچھا گفٹ نہیں ہے؟‘
ابھی یہ بحث آغاز میں ہی تھی کہ نثار انجم مینگل معاشرے کے طبقات کے حوالے سے نکات بیچ میں لے آئے۔
انہوں نے لکھا کہ ’اگر غریب لوگ گدھے سے محبت کریں تو ہزار تنقیدیں اور امیر لوگ چوم لیں تو محبت‘
انہوں نے ملک میں جاری سیاسی معاملات اور اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے آگے انہوں نے شاید کسی خودساختہ شعر کا مصرعہ لکھا کہ ’عشق میں جمہوریت نہیں ورنہ دھرنا دے کر اسے پا لیتا۔‘
زبیر قریشی نے شاید صارفین کی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ ’پاکستانی لوگ گدھوں کو اتنا پسند کیوں کرتے ہیں، کیا کسی کو معلوم ہے؟‘
اسی طرح شہزاد نے اسے ’شہرت‘ کی تلاش قرار دیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’یہ لوگ سستی شہرت کے لیے کیا کیا کر رہے ہیں۔‘
عفان ادریس فاروقی نے پوسٹ پر کمنٹس کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس جوڑے کو 21 توپوں کی سلامی، یہ سیارہ چھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔‘
عمار خان یوسفزئی نے بحث کو مزید مزاحیہ ہونے سے بچانے کے لیے سنجیدگی کا دامن تھاما۔
’گدھا ضد، خود آگاہی، ایمانداری، سادگی اور خوشحالی کی علامت ہے، اور کام، عاجزی، محنت، ہمت اور سچائی کی بھی علامت ہے۔‘
حیدر عفان نے ایک بار پھر بحث کو مزاح کی طرف موڑتے اذلان کو مخاطب کیا اور لکھا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ پیار میں کوئی پاتا ہے، کوئی کھوتا ہے۔‘
اس میں ان کا اشارہ غالباً لفظ ’کھوتہ‘ کی طرف تھا، جو پنجابی میں گدھے کو کہتے ہیں۔
شعیب نے کارٹون کیریکٹر جیری کی غصے والی تصویر کے ساتھ یہ کیپشن لکھا ’کون ہیں یہ لوگ، کہاں سے آتے یہ لوگ‘
شیخ نے آگے بڑھتے ہوئے ایک پریشانی ظاہر کرنے والے ایموجی کے ساتھ بحث کو ان الفاظ کے ساتھ سمیٹا کہ ’کیا کیا دیکھنا پڑ رہا ہے۔‘