Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتوں کے توانائی کی بچت کے منصوبے کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟

بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی حکومتوں نے گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کا فیصلہ کیا تھا (فائل فوٹو: فِلکر)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک بھر میں مارکیٹیں رات ساڑھے آٹھ بجے جبکہ شادی ہال رات 10 بجے بند کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ تاجر برادری نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے عمل درآمد سے انکار کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی حکومت نے توانائی کی بچت کا کوئی منصوبہ بنایا ہو اور اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں نہ آئی ہوں۔
 گذشتہ 30 برسوں کے دوران دیکھا جائے تو کم وبیش ہر حکومت نے اپنے طریقے سے توانائی کی بچت کے طریقے آزمانے کی کوشش کی لیکن کسی کو بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔
ان 30 برسوں میں توانائی کی بچت کے لیے سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے دو طریقے آزمائے گئے اور بظاہر دونوں ہی ناکام ہوئے۔
ماہرین کے مطابق ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں کے بارے میں عوام کو آگاہی دینے سے پہلے ہی حتمی فیصلہ کر لیتی ہے۔‘
’عوام حکومت کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ہر بار پلان ناکام ہو جاتا ہے۔‘
سنہ 1994 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو اس وقت بھی ملک میں بجلی کا بحران تھا۔
حکومت نے ’میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘ کے شہرہ آفاق پروگرام کے ساتھ ساتھ توانائی کی بچت کے لیے سرکاری دفاتر میں اے سی اور لائٹس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مارکیٹیں اور شادی ہال رات دیر تک کھلنے کا رواج نہیں تھا۔
اس کے ساتھ بے نظیر حکومت نے یورپی ممالک کی تقلید میں ملک میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم اس فیصلے کی عوامی سطح پر اس قدر مخالفت کی گئی کہ حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف حکومت نے بھی توانائی کی بچت کا یہی طریقہ اپنایا کہ دفاتر میں اے سی اور بتیوں کا کم سے کم استعمال یقینی بنایا جائے لیکن افسر شاہی کب تک یہ جبر برداشت کرتی۔

بجلی کی بچت کے لیے  بے نظیر حکومت نے گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کا فیصلہ کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بے نظیر حکومت کے گھڑیاں آگے کرنے کے ماڈل کو اپناتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اپریل 2002 میں ایک گھنٹہ گھڑیاں آگے کرنے کا فیصلہ کیا تاہم بعد میں اس پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
حکومتی فیصلے کے باوجود بھی لاکھوں افراد نے اپنی گھڑیوں کا وقت تبدیل نہیں کیا اور عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حکومت نے بھی خاموشی اختیار کرلی تھی۔
سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ توانائی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا.
پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک بار پھر اپنے ہی پرانے منصوبے کو سامنے لانا پڑا اور اس مرتبہ اپریل 2010 سے اگست 2010 تک گھڑیاں آگے کرنے کا فیصلہ ہوا جسے بعد میں توسیع دے کر 30 اکتوبر 2010 تک کر دیا گیا، کسی حد تک اس پر عمل بھی درآمد ہوا۔
اسلام آباد میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ہمیں اتنا ضرور یاد ہے کہ سوائے انتہائی اعلٰی سطح کی سرکاری مصروفیات کے کم وبیش ہر پروگرام جو پہلے 10 بجے ہونا ہوتا تھا اس کا وقت 11 بجے کر دیا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق ’توانائی کے بچت پروگرام پر عمل درآمد کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی حکومت نے بھی تسلیم کیا تھا کہ ’گھڑیاں آگے کرنے کے جو نتائج متوقع تھے وہ حاصل نہیں ہو سکے۔‘
’عوام کو یہ آگاہی دینا کہ اس کا بنیادی مقصد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ گھڑیاں تبدیل ہونے کے باوجود عوام نے اپنے اوقات کار تبدیل نہیں کیے۔‘
سنہ 2013 میں نواز شریف حکومت آئی تو غالباً پہلی مرتبہ دکانیں آٹھ بجے بند کرنے کا پروگرام بھی سامنے آیا جسے ملک بھر کی تاجر تنظیموں سے مسترد کر دیا اور حکومت کی لاکھ کوششوں کے باوجود دکانیں جلدی بند کرانے کا آئیڈیا ناکام رہا تھا۔
اس حوالے سے تاجر تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’گاہکوں کی آمد کا وقت ہی شام کے بعد ہے کیونکہ کچھ بھی ہو جائے لوگ شام تک اپنے کام کاج میں مصروف رہتے ہیں اور ان سے فراغت پانے کے بعد خریداری کے لیے نکلتے ہیں۔‘
’حکومتی فیصلے کے تحت دکانیں بے شک صبح سویرے کھل جائیں، خریدار نہیں ہوں گے تو کمائی کہاں سے ہوگی؟‘

دکانیں بند رکھنے کے حکومتی فیصلے پر کافی حد تک عمل درآمد کورونا لا ک ڈاؤن کے دوران ہوا (فائل فوٹو: روئٹرز)

تاجروں کے مطابق ’اس سے تو وقت اور توانائی دونوں کا ہی نقصان ہوگا کیونکہ دکانوں میں صرف بتیاں ہی نہیں جلتیں بلکہ بجلی سے چلنے والی اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔‘
وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بھی سابق حکومتوں کے اس فیصلے کو آگے بڑھانا چاہا لیکن دن 11 بجے تک سرکاری دفاتر میں اے سی بند رکھنے کے علاوہ کوئی بڑا فیصلہ نہ کر سکی۔‘
عمران خان کی حکومت میں گرمیوں کے موسم میں پینٹ کوٹ کے بجائے صرف پینٹ شرٹ یا شلوار قمیض کے ساتھ ویسٹ کوٹ پہننے کا بھی مشورہ دیا گیا تھا تاکہ وہ دن کا کچھ حصہ اے سی کے بغیر گزار سکیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں دکانیں بند رکھنے کے حکومتی فیصلے پر کافی حد تک عمل درآمد کورونا لاک ڈاؤن کے دوران حکومتی بندشوں کے باعث ممکن ہوا تھا۔
 بصورت دیگر سرکاری مشینری کو استعمال کرکے کچھ دنوں اور ہفتوں تک تو تاجروں کو دکانیں بند کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر اس میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

 گذشتہ 30 برسوں کے دوران ہر حکومت توانائی کی بچت کے طریقے آزمانے کی کوشش کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے سابق بیوروکریٹ عبدالرؤف چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’توانائی کی بچت کے حوالے سے ہر حکومت کم و بیش یکساں پلان دیتی رہی ہے۔‘
’سرکاری دفاتر کی حد تک عمل درآمد بھی صرف نچلے درجے کے ملازمین کے دفاتر پر ہی ہوتا تھا اور اعلٰی افسران کے دفاتر کے اے سی شاید ہی بند ہوتے تھے۔‘
ان کے مطابق ’حکومت کو چاہیے کہ پہلے مستقل بنیادوں پر سرکاری اور نجی شعبے کے نئے اوقات کار کا تعین اور اعلان کرے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے عوامی سطح پر بڑی آگاہی مہم چلائی جائے۔‘
’رات دیر تک گھروں سے باہر رہنے اور شاپنگ میں مصروف رہنے کے رجحان کو تبدیل کیا جائے۔ تاجر برادری کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کے علاوہ تمام صوبائی حکومتیں بھی وفاق کے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہوں تو ہی کامیابی ممکن ہے۔‘

شیئر: