بلوچستان کی آئرش نژاد ’ممی جینیفر‘ جو صوبے کی پہلی خاتون رکن اسمبلی بنیں
بلوچستان کی آئرش نژاد ’ممی جینیفر‘ جو صوبے کی پہلی خاتون رکن اسمبلی بنیں
جمعرات 12 جنوری 2023 5:56
اسامہ خواجہ
جینیفر قاضی نے بلوچستان کے مختلف قبائل اور خاندانوں کے درمیان مصالحت کا کردار بھی نبھایا (فوٹو: نیلوفر قاضی)
تقسیم ہند کے بعد جنوری 1948 میں جب قاضی جلال الدین کےبڑے بیٹے قاضی موسی اپنی آئرش اہلیہ کے ہمراہ وطن واپس لوٹے تو ان کے علاقے پشین میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ان کی بیگم دراصل شہزادی جینیفر ہیں۔ انہیں قاضی موسیٰ کو ملکہ الزبتھ کی جانب سے رشتے میں دیا گیا ہے۔ گو کہ اس افواہ میں کوئی حقیقت نہیں تھی، مگر انہیں ایک عرصے تک اس افواہ کے بارے میں وضاحتیں دینی پڑیں۔
قاضی موسیٰ کے والد دراصل قندھار سے جولائی 1880 میں میوند کی مشہور جنگ کے بعد پشین میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ قاضی جلال الدین جو قندھار میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے یہاں آ کر ریاست قلات کے وزیراعظم تعینات ہوئے۔
پشین میں قیام کے دوران انہوں نے ترین قبیلے کی خاتون سے شادی کی۔ جس میں سے ان کے تین بیٹے، قاضی محمد موسیٰ، قاضی محمد عیسیٰ اور قاضی محمد اسماعیل پیدا ہوئے۔
قاضی موسیٰ 1939 میں آکسفورڈ کے ایکسیٹر کالج میں فلسفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں ان کی ملاقات آئرش خاتون جینیفر سے ہوئی۔
جینیفر کی پیدائش 11 نومبر 1917 کو پہلی جنگ عظیم کے دوران آئرلینڈ کی کاؤنٹی کیری کے علاقے ’تربرت‘ میں جان ورین کے ہاں ہوئی۔ ان کا نام ’بریجٹ ورین‘ رکھا گیا۔ بریجٹ کے والد چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری کرتے تھے۔ بریجٹ کی پانچ بہنیں اور دو بھائی تھے۔
1930 میں وہ انگلینڈ منتقل ہوئیں اور جینیفر نام اختیار کیا۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران انہوں نے نرس کی تربیت بھی حاصل کی۔
قاضی موسیٰ سے ملاقات کے بعد جینیفر (جو کیتھولک عیسائی تھیں) نے 1940 میں ان سے شادی کر لی۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنا نام تبدیل کر کے جہاں زیبا اختیار کیا۔
سنہ 1942 میں ان کے بیٹے اشرف جہانگیر قاضی کی پیدائش ہوئی، جو ان کی واحد اولاد تھی۔ البتہ جینیفر سے شادی سے قبل قاضی موسیٰ کی پاکستان میں ایک شادی ہو چکی تھی، اور اس بیوی سے ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
پشین واپسی کے بعد قاضی موسیٰ نے اپنے چھوٹے بھائی قاضی عیسیٰ کے ساتھ مل کر بلوچستان مسلم لیگ کے لیے کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اسی دوران قاضی عیسیٰ کو برازیل میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔ قاضی موسیٰ کو 1950 کے آغاز میں بلوچستان مسلم لیگ کا ترجمان مقرر کیا گیا۔
قاضی موسیٰ نے اپریل 1952 میں بلوچستان میں موجود چاروں ریاستوں کو ضم کرنے کی حمایت کی۔
جینیفر کے آبائی علاقے کاؤنٹی کیری کی مشہور شخصیات کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب کے مطابق پاکستان آمد کے بعد جینیفر کو خطرہ تھا کہ ان کی شادی کی مخالفت کرنے والے انہیں نقصان پہنچائیں گے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ احساس ہوا کہ انہیں قبول کر لیا گیا ہے تو یہ خطرہ جاتا رہا۔
اس وقت کے افغان بادشاہ کے زیر اثر کابل فیشن کے اعتبار سے کئی قریبی شہروں اور ملکوں سے کہیں آگے تھا۔ افغان سرحد سے 50 میل دور پشین سے قاضی موسیٰ اور جینیفر نے کئی مرتبہ کابل کا چکر لگایا۔
پشین کی قبائلی زندگی میں عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر جینیفر کا سسرال باقی قبائل کی نسبت خاصا روشن خیال سمجھا جاتا تھا۔
1956 میں قاضی موسیٰ کا ایک سڑک حادثے میں انتقال ہو گیا (اس وقت پشین میں صرف ان کے خاندان کے پاس ہی ایک گاڑی تھی) تو جینیفر قاضی نے آئرلینڈ واپس جانے کا سوچا۔ مگر اپنے 14 سالہ بیٹے اشرف جہانگیر اور خاندان کے اصرار پر جینیفر قاضی نے پشین میں ہی قیام کا فیصلہ لیا۔
آگے بڑھ کر انہوں نے مختلف قبائل اور خاندانوں کے درمیان مصالحت کا کردار بھی نبھایا۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق 1960 میں جینیفر قاضی نے آئرلینڈ کا آخری بار دورہ کیا اور پھر وہ اپنے شوہر کے دیس کی ہو کر رہ گئیں۔
1973 کے آئین پر دستخط کا معاملہ
علاقے میں اثر و سروخ کے ساتھ جہاں زیبا المعروف جینیفر قاضی نے سیاست میں بھی حصہ لیا۔ عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ بنیں اور 1970 کے انتخابات میں حصہ لینے والی چند خواتین میں شامل ہوئیں۔
1970 میں جینیفر جہاں زیبا قاضی بلوچستان سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون رکن قومی اسمبلی تھیں۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد جب اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تو پہلا مرحلہ آئین سازی کا تھا۔ 1972 کے اواخر میں وہ اسمبلی کی آئین ساز کمیٹی کا حصہ بنیں۔ آئین کی تشکیل میں ان کا سارا زور زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری کا حصول اور اختیارات میں اضافہ تھا۔
ایک مرحلے پر جینیفر جہاں زیبا قاضی نے 1973 کے آئین پر دستخط کرنے سے بھی انکار دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے انہیں منانا ایک مرحلے پر انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ بھٹو نے جینیفر قاضی پر ان کے بیٹے اشرف جہانگیر (جو اس وقت قاہرہ کے سفارتخانے میں تعینات تھے) اور قاضی عیسیٰ کے ذریعے دستخط کے لیے دباؤ ڈالا۔ جینیفر قاضی نے احتجاج کے ساتھ آئین پر دستخط کر دیے۔
اگست 1973 میں جینیفر قاضی نے اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی لڑا جس میں ناکام ہو گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جب بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا تو جینیفر جہاں زیبا قاضی ان رابطہ کاروں میں شامل تھیں جو حکومت اور بلوچ رہنماؤں کے درمیان رابطے کا کام کرتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور بھٹو میں جب اختلافات بڑھے تو نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد جہاں زیبا قاضی نے سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی۔
بعد از سیاست
سیاست سے کنارہ کشی کے بعد جینیفر قاضی نے خواتین کی تعلیم اور حقوق کے لیے کام کیا۔ 80 کی دہائی کے آغاز میں انہوں نے پشین میں برف کی فیکٹری لگائی، جو سنہ 2000 کے آغاز تک چلتی رہی۔ 1992 میں نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے جینیفر قاضی کا کہنا تھا کہ ’میں پشتو اور اُردو کا مرکب بولتی ہوں، مگر جب غصہ آئے تو پھر میں سیدھی انگریزی پر آ جاتی ہوں، جو کہ لوگ سمجھتے بھی ہیں۔‘
اپنے خاندان، حلقہ احباب میں ممی جینیفر کے نام سے مشہور جہاں زیبا موسیٰ قاضی کی وفات 12 جنوری 2008 کو ہوئی تو اس وقت تک پشین میں شدت پسند عناصر کا خاصا غلبہ ہو چکا تھا۔ پشین اور قریب کے علاقے میں آباد ہزاروں قبائلیوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور پشین شہر کی مارکیٹیں بند رہیں۔ ان کی تدفین خاندانی قبرستان میں بزرگ صوفی شیخ فرید بابا کے مزارکے قریب کی گئی۔