Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینی صدر شی جن پنگ کی شامی ہم منصب سے ملاقات، نئی ’سٹریٹجک پارٹنرشپ‘ کا اعلان

شام کی طرح چین بھی روس اور ایران کا اہم اتحادی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
چینی صدر شی جن پنگ نے شامی ہم منصب بشار الاسد کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ دونوں رہنما ایک نئی ’سٹریٹجک شراکت داری‘ کا اعلان کریں گے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ شی جن پنگ اور بشار الاسد نے جمعہ کی سہ پہر مشرقی چین کے شہر ہانگ زو میں ملاقات کی۔
سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق چینی صدر نے اپنے ہم منصب کو بتایا کہ ’آج ہم مشترکہ طور پر چین، شام سٹریٹجک پارٹنرشپ کے قیام کا اعلان کریں گے، جو دوطرفہ تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل بن جائے گی۔‘
 
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے بھرپور بین الاقوامی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے چین، شام کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے، ایک دوسرے کی مضبوطی سے حمایت، دوستانہ تعاون کو فروغ دینے اور بین الاقوامی انصاف اور انصاف کا مشترکہ دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
شی جن پنگ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ’بین الاقوامی تبدیلیوں کے امتحان کو برداشت کر چکے ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوئی ہے۔‘
شام کے صدر بشار الاسد چین کے دورے پر پہنچے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق سنہ 2004 کے بعد یہ شام کے صدر کا پہلا چین کا دورہ ہے۔
دس برس تک مغرب کی جانب سے پابندیوں کے شکار شام کے صدر کے اس دورے کو اپنی سفارتی تنہائی ختم کرنے کی تازہ ترین کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جمعرات کو جب شام کے صدر ایئر چائنا کے طیارے کے ذریعے مشرقی شہر ہانگزو میں اترے تو وہاں شدید دھند چھائی ہوئی تھی جس کو چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ’پُراسرار فضا‘ سے تشبیہہ دی۔
بشار الاسد نے چین کا آخری دورہ سنہ 2004 میں کیا تھا جب ہو جن تاؤ صدر تھے۔ وہ شام کے کسی بھی صدر کا چین کا پہلا دورہ تھا۔ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات سنہ 1956 میں قائم ہوئے تھے۔
شام کی طرح چین بھی روس اور ایران کا اہم اتحادی ہے۔
سنہ 2011 میں بشار الاسد کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر طاقت کے استعمال کے بعد متعدد ملکوں نے شام سے سفارتی تعلقات منقطع یا کم کر دیے تھے تاہم چین نے اس دوران بھی ان تعلقات کو برقرار رکھا۔
ایک دہائی کی خانہ جنگی کے دوران شام میں پانچ لاکھ سے زائد افراد مارے گئے جبکہ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔
اس جنگ سے ملک کے انفراسٹرکچر اور صنعتوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

بشار الاسد نے چین کا آخری دورہ سنہ 2004 میں کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

شام کے صدر سنیچر کو چین میں ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ وہ اس کے بعد چین کے کئی شہروں میں وفد کے ہمراہ مقامی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
چین کے صدر کے ساتھ علاقائی گیمز کی افتتاحی تقریب میں نظر آنا شام کے صدر بشار الاسد کے عالمی سٹیج پر اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
شام نے سنہ 2022 میں چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹیو میں شمولیت اختیار کی اور رواں سال مئی میں عرب لیگ میں بھی دمشق کی واپسی ہوئی ہے۔
بشار الاسد کے شام کو اس وقت معاشی بدحالی کا سامنا ہے اور وہ پڑوسی عرب ملکوں سے تعلقات کے ازسر نو بحالی کی کوششوں کے علاوہ مالی مدد کے خواہاں بھی ہیں۔ 
امریکہ نے سنہ 2020 میں ایک قانون کی منظوری دے کر شام کے ساتھ تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اگر چین کی سرمایہ کار کمپنیاں شام میں کاروبار کا فیصلہ کرتی ہیں تو اُن کو امریکہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

شیئر: