Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکٹیبلز کی اڑان: بلوچستان عوامی پارٹی کا اپنا وجود برقرار رکھنے کا فیصلہ

2018 کے اوائل میں مسلم لیگ ن کے بلوچستان سے اراکین اسمبلی نے بغاوت کر کے صوبے میں اپنی جماعت کی حکومت گرا دی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)  سے تعلق رکھنے والے متعدد سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی ن لیگ میں شمولیت کے باوجود پارٹی کے بانی رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ بی اے پی کا وجود برقرار رکھا جائے گا اور عام انتخابات میں امیدوار بھی کھڑے کیے جائیں گے۔ 
اس حوالے سے پارٹی کے ایک بانی رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس 5 نومبر کو کوئٹہ میں ہوا۔ جس میں پارٹی کی نئی قیادت کا انتخاب کیا گیا۔ پارٹی کارکنان نے متفقہ طور پر خالد مگسی کو بلوچستان عوامی پارٹی کا نیا صدر منتخب کیا۔ 
باپ پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہماری جماعت کے بہت سے رہنما پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ جس کے بعد ہمارے پاس گنتی کے الیکٹیبلز رہ جائیں گے۔ اس کے باوجود ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بے شک دو لوگ رہ جائیں تب بھی بلوچستان عوامی پارٹی کا وجود برقرار اور الگ حیثیت قائم رکھی جائے گی۔‘
پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ پانچ برس میں بلوچستان عوامی پارٹی نے سینیٹ میں 11، قومی اسمبلی میں پانچ جبکہ صوبائی اسمبلی میں 65 میں سے 24 نشستیں حاصل کرکے بھرپور سیاسی پذیرائی حاصل کی۔ اب اگر کچھ رہنما پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں تو بھی پارٹی کو قومی اور صوبائی سطح پر کردار کی وجہ سے عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حمایت سے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔‘
انتخابات کے دوران کسی سیاسی جماعت سے اتحاد کے بارے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کے دوران اتحاد کے بارے میں ابھی سوچا نہیں تاہم حکومت سازی کے حوالے سے کس جماعت کے ساتھ جانا ہے اس حوالے سے بھی فیصلہ انتخابات کے بعد ہی کیا جائے گا۔‘
2018 کے اوائل میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے بیشتر ارکان اسمبلی نے بغاوت کر کے صوبے میں اپنی ہی جماعت کی حکومت گرا دی تھی اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ جولائی 2018 کے انتخابات میں باپ نے کامیاب ہو کر صوبے میں مخلوط حکومت بنائی۔
ان ارکان اسمبلی نے سینیٹ میں ن لیگ کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا اور سات آزاد سینیٹر منتخب کرکے ایک کے بجائے دو دفعہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بھی منتخب کروا لیا۔ 2018 سے 2022 تک بلوچستان عوامی پارٹی نے پہلے پیپلز پارٹی اور بعد ازاں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیا۔ 

سابق وزیراعلٰی جام کمال، سابق وزرا نور محمد دمڑ اور عاصم کرد گیلو کے بھی مسلم لیگ میں شمولیت کا امکان ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بی اے پی نے اس اتحاد سے راہیں جدا کر لیں اور پی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کر لیا۔
کچھ عرصہ قبل باپ پارٹی کے کچھ ارکان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی لیکن نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی ہواؤں کا رخ تبدیل ہوا جس کے بعد 18 الیکٹیبلز ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ جن کا باضابطہ اعلان چند روز میں ہوگا۔ 
بلوچستان عوامی پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی اور سبی سے سابق رکن قومی اسمبلی میر دوستین ڈومکی، جعفرآباد سے سابق رکن قومی اسمبلی محمد خان جمالی، بارکھان سے سابق رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران، نصیرآباد سے سابق رکن صوبائی اسمبلی میر عبدالغفور لہڑی اور ان کے بھائی سابق ایم پی اے محمد خان لہڑی شامل ہیں۔
سابق ایم پی اے لورالائی محمد خان اوتمانخیل، خاران کے سابق ایم پی اے میر کریم نوشیرانی، دکی کے سابق ایم پی اے سردار مسعود لونی، ڈیرہ بگٹی سے سابق رکن صوبائی اسمبلی طارق مسوری بگٹی، چاغی کے سابق ایم پی اے میر مجیب الرحمان محمد حسنی اور مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی ربابہ بلیدی بھی ن لیگ میں شامل ہو رہی ہیں۔ 
سابق وزیراعلٰی جام کمال خان، سابق صوبائی وزرا نور محمد دمڑ اور عاصم کرد گیلو کے ساتھ بھی معاملات طے پا گئے ہیں۔ جبکہ لشکری رئیسانی کو بھی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں لیگی وفد نے جا کر شمولیت کی دعوت دی۔
انہوں نے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔

شیئر: