Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موسمیاتی تبدیلی، سعودی عرب صرف باتیں نہیں بلکہ سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے: عادل الجبیر

وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر عرب نیوز کی اسسٹنٹ ایڈیٹر انچیف نور نقلی کو انٹرویو دیتے ہوئے۔
مملکت کے موسمیاتی امور کے نمائندہ خصوصی عادل الجبیر نے کہا ہے کہ بہت کم ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے سعودی عرب جیسی کوششیں شروع کی ہیں۔
الجبیر جو سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور بھی ہیں، نے یہ ریمارکس منگل کو عرب نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں دیے۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب صرف بات نہیں کر رہا بلکہ ہم اصل میں کام کر رہے ہیں اور ہم اصل میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اور نتائج سب دیکھ سکتے ہیں جو واضح ہیں۔‘
’اگر آپ نیوم جائیں تو آپ کو وہ زبردست کام دیکھنے کو ملے گا جو ماحول کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔ اگر آپ ہماری ساحلی پٹی پر نظر ڈالیں تو آپ کو وہ کام نظر آئے گا جو مینگروز کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے۔
’آگر آپ ہمارے شہروں پر نظر ڈالیں تو آپ کو وہ کام نظر آئے گا جو ہمارے شہروں کو سرسبز بنانے اور ہمارے شہروں کو مزید موثر و کارآمد بنانے کے حوالے سے کیا جا رہا ہے تاکہ آپ کا سفر کا وقت کم ہو اور آلودگی کو کم کیا جا سکے اور لوگوں کے معیار زندگی میں اضافہ کیا جا سکے۔‘
عادل الجبیر نے وضاحت کی کہ سعودی عرب نے سعودی گرین انیشی ایٹیو اور مڈل ایسٹ گرین اینشی ایٹیو کے حصے کے طور پر اب تک 80 سے زیادہ مختلف منصوبوں میں 186 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے اور سرمایہ کاری موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے، ریگستانوں کو دوبارہ آباد کرنے اور ممالک کو ’سرکلر کاربن اکانومی اپروچ‘ اپنانے میں مدد دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں بہت کم ممالک نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب جیسے اقدامات کیے ہیں۔
’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ ہم اس کرہ ارض کے باشندے ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اہم اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے بہتر مستقل کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔‘
مملکت کے سبز توانائی کے منصوبوں پر گفتگو کرتے ہوئے عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نیوم میں دنیا کا سب سے بڑا گرین ہائیڈروجن پلانٹ بنا رہا ہے۔ شمال مغربی صوبے تبوک میں مستقبل کا سمارٹ شہر زیرتعمیر ہے۔

عادل الجیبر نے کہا کہ بہت کم ممالک نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب جیسے اقدامات کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ہم صاف ہائیڈروجن کی دیگر اقسام پیدا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ہم ایئرلائن انڈسٹری میں کاربن کو کم کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ کاربن کی کمی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔‘
انہوں نے کوپ 28 کے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ کہا کہ ’وہ ممالک جو تیل اور گیس کی پیداوار میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ خود سے شروع کریں۔ میں نے ان میں سے کسی ملک کو نام لیے بغیر نہیں دیکھا۔ میں نے ان میں سے کسی بھی ملک کو تیل اور گیس کی اپنی پیداوار کو کم کرنے اور کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹائم لائن تیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو بدتر آلودگی پھیلاتا ہے۔‘
عادل الجبیر نے مزید کہا کہ مملکت کے پاس قابل تجدید توانائی میں زبردست سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ حل موجود ہیں اور سعودی شہروں کو دوبارہ ڈیزائن کرنے میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ زمین اور سمندر دونوں کے بڑے علاقوں کو محفوظ علاقوں کے طور پر بھی مختص کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مملکت فضلے کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں موسمیاتی اور توانائی مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی فنڈز مختص کیے گئے ہیں تاکہ دیگر ممالک کی مدد ہو سکے۔
عادل الجبیر نے بعض مغربی ممالک کی منافقت کی نشاندہی کی جو آلودگی کے حوالے سے متضاد پالیسیاں اپناتے ہیں۔
’وہ ممالک جو کہتے ہیں کہ ہائیڈرو کاربن کے خلاف ہیں، اچانک کوئلہ پیدا کرنے کے لیے واپس کام شروع کر دیتے ہیں جو تیل اور گیس سے کہیں زیادہ اور بہت زیادہ آلودگی پھیلانے والا ہے اور انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرے لیے یہ کوئی قابل جواز اور مناسب پوزیشن نہیں۔‘
قابل تجدید توانائی سے طویل المدتی فوائد پر بات کرتے ہوئے الجبیر نے کہا کہ سعودی گرین انیشی ایٹیو کے نتیجے میں آنے والے مستقبل کے فوائد سعودی عرب کے منصوبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ ہیں۔
’قابل تجدید توانائی بہت زیادہ منافع بخش ہے۔ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے ان شعبوں میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔ چاہے وہ شمسی ہو چاہے وہ  ہوا سے ہو، چاہے وہ ہائیڈرو ہو، الیکٹرک کاریں ہوں، یا الیکٹرک کار بیٹریاں ہوں کیونکہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بہت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت منافع بخش بھی ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر عادل الجبیر نے 2030 ورلڈ ایکسپو میں مملکت کو میزبانی ملنے کے حوالے سے کہا کہ ’ارادہ یہ ہے کہ دنیا کے لیے، او دنیا کے ذریعے سعودی عرب میں۔‘

عادل الجبیر نے کہا کہ مملکت نے 80 سے زیادہ مختلف منصوبوں میں 186 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے 2030 کو سعودی عرب کے لیے ’پرفیکٹ ایئر‘ قرار دیا کیونکہ یہ مملکت کے وژن 2030 کے اصلاحاتی منصوبے کے ہدف کا سال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جُڑنے اور رابطہ کاری کرنے کے بارے میں ہے۔ ہم دنیا میں توانائی کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ہیں۔ اس لیے توانائی کی عالمی منڈیوں میں ہمارا بڑا حصہ ہے۔ ہم سبز اور صاف ہائیڈروجن کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں ایک بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ ہمیں ایک اہم ملک بناتا ہے۔‘
’ہم پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے ذریعے عالمی برادری کے مالیاتی نظام میں سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ایک ہیں۔‘
الجبیر نے کہا کہ ریاض میں ہونے والی ورلڈ ایکسپو 2030 ’مکمل طور پر قابل تجدید، مکمل طور پر سبز‘ ہو گی اور ہر ملک کا اپنا پویلین ہو گا۔
’ایکسپو 2030 دنیا کو سعودی عرب لانے کا ذریعہ بنے گا اور سعودی شہریوں کو دنیا سے جُڑنے کا موقع دے گا۔ یہ ہمارے لیے اہم ہے۔ یہ ایک بہت ہی منفرد اور خصوصی ایکسپو ہو گا جس میں ہمیں کوئی شک نہیں کہ یہ دیگر ایکسپوز کے لیے معیار طے کرے گا۔‘

شیئر: