اسرائیل پر اس حوالے سے بھی تنقید ہو رہی ہے کہ وہ محاصرے میں موجود قحط کے خطرے کے شکار لاکھوں لوگوں تک خوراک اور دیگر امدادی سامان پہچانے والے کارکنوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اسرائیل کے تازہ حملوں میں تین برطانوی، ایک آسٹریلین، ایک کینیڈین اور ایک پولینڈ کے شہری کی ہلاکت ہوئی جبکہ ان کا فلسطینی ڈارئیور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
یہ غیرملکی کارکن ایک بین الاقوامی خیراتی ادارے ورلڈ سینٹرل کچن کی جانب سے غزہ میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
اس حملے ہلاک ہونے والے فلسطینی شہری کی باقیات تدفین کے لیے ان کے خاندان کے حوالے کی گئیں جبکہ دیگر غیرملکی کارکنوں کی لاشوں کو رفح کراسنگ پوائنٹ کے راستے مصر روانہ کیا گیا۔
دوسری جانب اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے غلطی سے حملے کیے جس سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
امریکہ سمیت اسرائیل کے چند قریبی حلیفوں نے ان حملوں کی مذمت کی ہے جن کے بعد خیراتی تنظیموں کی غزہ میں خوراک کی فراہمی کا سلسلہ رک گیا ہے اور غزہ میں محصور افراد کے قحط کا شکار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
غزہ کے لیے سمندری راہداری کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ملک قبرص نے کہا کہ جو بحری جہاز پیر کو پہنچے تھے وہ تقریباً 240 ٹن امدادی سامان منزل پر اتارے بغیر اپنے ملک واپس لوٹ رہے ہیں لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ سمندری راستے سے امداد کی ترسیل جاری رہے گی۔
غزہ حملے پر بین الاقوامی تنقید کے بعد اسرائیل کو بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے۔
جس دن غزہ میں یہ مہلک فضائی حملے ہوئے، اسی دن اسرائیل نے دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر حملے میں دو ایرانی جنرلز کو ہلاک کر کے مزید خوف پھیلا دیا تھا۔
اس کے بعد منگل کو اسرائیل کی حکومت نے قطر کے ملکیتی ’الجزیرہ ٹیلی ویژن‘ پر پابندی کا فیصلہ کیا تھا۔
امدادی سامان کے قافلے پر ہونے والے حملے کو ناقدین نے ’اسرائیل کی اندھا دھند بمباری‘ اور غزہ میں ’عام شہریوں کی ہلاکتوں پر لاپروائی‘ قرار دیا ہے۔